’یہ سڑک تو آڑھے ترچھے نوکیلے پتھروں بھری ڈھلوان تھی جس میں ایک گاڑی بمشکل لڑھک سکتی تھی۔‘ فوٹو: اے ایف پی
اس عید الفطر پر ہفتہ بھر کی چھٹیاں ملیں توہم نے سوچا کہ کیوں نہ اہل خانہ کو پیارے پاکستان کی سیر کرائیں۔ جس کو دیکھنے کی دعوت ہماری حکومت دنیا بھر کے سیاحوں کو دے رہی ہے۔
دوستوں سے مختلف پر فضا مقامات کے بارے میں معلومات لیں تو علم ہوا کہ ناران کاغان کی طرف ٹریفک جام ہے، لہٰذا سمارٹ بنتے ہوئے ہم نے سوات کے خوبصورت مقامات کالام، بحرین اور مالم جبہ جانے کی ٹھان لی۔
اسلام آباد سے سوات موٹر وے کی طرف شاداں و فرحاں چلے اور موٹر وے دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا مگر ہماری ساری خوشیوں کی طرح یہ خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی جب کوئی چند کلومیٹر کے بعد پولیس حکام نے چکدرہ کے قریب موٹر وے استعمال کرنے سے منع کر دیا کیونکہ واپس آنے والوں کے رش کہ وجہ سے اس کے دونوں اطراف بھی ٹریفک شدید جام تھی۔
خیر حکومت کی رٹ کو تسلیم کرتے ہوئے موٹر وے سے نیچے اتر کر چک درہ سے تھانہ کے علاقے تک کا دشوار گزار پہاڑی علاقہ کراس کیا۔ قریباً بیس کلومیٹر کا ایمان تازہ کرنے والا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرنے کے بعد کوئی پکی سڑک دیکھی تو جان میں جان آئی۔۔
وہاں سے سوات کے علاقے بحرین کے لیے چلتے گئے چلتے گئے اورچلتے گئے۔ راستے میں عید کے باعث سیاحوں کا بے پناہ رش تھا۔ بھلا ہو خیبرپختونخوا پولیس کا جو جگہ جگہ راستہ کلیئر کروا رہی تھی اس لیے آدھ گھنٹے سے زیادہ کسی جگہ جام میں نہ پھنسے حتیٰ کہ نو گھنٹوں بعد بحرین پہنچ گئے، تاہم مدین سے بحرین تک ٹریفک جام کی وجہ سے چار گھنٹے لگے۔
ٹریفک جام کی بڑی وجہ بے تاب سیاحوں کا تنگ سڑکوں پر دہری لائنیں بنانا تھا۔ ایک بار تو سب کی غیر قانونی حرکتوں اور گھںٹوں کے انتظار سے تنگ آ کر ہم بھی دہری لائن میں آگئے مگر ہر شریف آدمی کی طرح فوراً پکڑے گئے اور ہر کسی سے معذرت کرکے اپنی اوقات یعنی لائن میں واپس آگئے۔
اس تمام خجالت کے بعد جب بحرین پہنچے تو وہاں کوئی ہوٹل دستیاب نہیں تھا اور رات کے دو بج چکے تھے۔ ہر ہوٹل کے استقبالیے پر جاجا کر در کھٹکٹھایا مگر کسی کا دل نہ پسیجا۔ آپ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ پیشگی منصوبہ بندی کرتے ہوئے پہلے ہوٹل کا کمرہ کیوں نہ بک کیا تو اس کی ایک وجہ تو ہماری روایتی کاہلی اور آخری لمحوں کا فیصلہ تھا اور دوسری بحرین کے ہوٹلوں کی اکثریت کی جانب سے آن لائن بکنگ کی سہولت نہ ہونا ہے۔
سوجب رات اڑھائی بجے نیند بھری آنکھوں ، تھکن سے چور جسم اور بچوں کی مایوسی بھری سسکیوں کے ساتھ اسلام آباد واپس جانے کا سوچنا شروع کیا تو ایک ہوٹل والے نے امید دلائی کہ ٹریفک جام کی وجہ سے ان کا ایک بڑا ریزرو کمرہ دستیاب ہے لیکن اس کی قیمت قریباً دوگنا زیادہ تھی۔ ہم نے فوراً آفر قبول کر لی۔
اگلے دن بحرین کے دلکش اور خوبصورت نظاروں نے بہت محظوظ کیا، خاص کر پہاڑوں سے نکلتے ہوئے علیحدہ علیحدہ دریاؤں کا ملنا ایک ایسا نظارہ تھا جس نے رستے کی ساری تکلیفوں کو بھلا دیا۔
بحرین کے بعد ہم کالام جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ اسلام آباد کے ایک دوست سے اچانک ملاقات ہو گئی جو پوری رات کالام ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ بھول کر بھی ادھر نہ جانا۔
ہم نے ہائی ٹیک ہونے کا ثبوت دینے کے لیے گوگل کے نقشے سے مالم جبہ پہنچنے کے لیے مدد مانگی۔ گوگل انکل نے ہمیں شانگلہ ٹاپ سے ایک تیز رستے کا آپشن دیا جسے ہم نے جھٹ سے قبول کر لیا۔
شانگلہ تک تو بہت دلکش نظاروں سے محظوظ ہوئے مگر بلندی پر پہنچ کر دو راستے مالم جبہ کی طرف نظر آئے، ایک پولیس اہلکار سے پوچھا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ہلکی بارش کی وجہ سے نیچے والا راستہ آپ کے لیے محفوظ رہے گا۔۔
پولیس اہلکار کا مشورہ مانے دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ ہم نے پچھتانا شروع کر دیا کیوں کہ دو سو میٹر بعد کچی سڑک شروع ہو گئی ۔ کچی ہی ہوتی تو مسئلہ نہ ہوتا مگر یہ سڑک تو آڑھے ترچھے نوکیلے پتھروں بھری ڈھلوان تھی جس میں ایک گاڑی بمشکل لڑھک سکتی تھی۔ اب نہ واپس اوپر جانا ممکن تھا اور نہ حفاظت سے آگے جانے ممکن لگ رہا تھا۔ ایسے میں ہم نے وہی کیا جو اکثر ہم وطن ایسے موقع پر کرتے ہیں یعنی کلمہ طیبہ اور درود شریف کا ورد۔ گاڑی میں بیٹھے افراد نے زندہ بچنے کی صورت میں نقد نوافل مانے اورچھوٹے بیٹے علی عبداللہ کے ہاتھ بھی دعا کے لیے اٹھ گئے۔ سب کہنے لگے کاش ہم گھر پر بور ہی ہوجاتے، کم از کم جان کو مشکل میں تو نہ ڈالتے۔
دوسروں کے برعکس مجھے یقین تھا کہ ہم زندہ بچ جائیں گے مگر یہ ڈر تھا کہ شاید گاڑی نہ بچے، کیونکہ پتھروں سے لگ لگ کر اس سے عجیب و غریب آوازیں آ رہی تھیں۔
ہلکی بارش بھی جاری تھی اور دعائیں اور ذکراذکار بھی۔ قریباً ایک گھنٹہ بعد سڑک ہموار اور کھلی ہو گئی مگر بدستور کچی ہی رہی ۔
مزید دو گھنٹے بعد جنگل کے پرخار راستوں پر کشت کاٹتے کاٹتے بالآخر مالم جبہ کے ہوٹل پہنچے ۔ پتا چلا یہی یہاں کا سب سے اچھا ہوٹل ہے۔ بلاشبہ سہولیات کافی اچھی تھیں مگر سروس کا معیار بہت غیر تسلی بخش تھا۔ اچھے خاصے ہوٹل میں غیر تربیت یافتہ عملے کی وجہ سے ہر مہمان تنگ تھا کسی کو کھانا نہیں ملا تو کسی کو کمبل۔ ناشتے کا آرڈر دینے کے دو گھنٹے بعد بیرا واپس آیا کہ آپ نے آرڈر کیا کیا تھا؟
غصے میں وہاں سے ناشتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دو کلومیٹر دور مالم جبہ ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ساری سڑک بھی گرد سے اٹی ہوئی تھی۔ اس ساری کیفیت میں جو واحد چیز بھلی لگی وہ مقامی پولیس تھی جس کے جوان گرد کے باوجود پتلی پتلی سڑکوں پر ٹریفک کو رواں رکھے ہوئے تھے۔ ان کو بے ساختہ سلام کرنے کا دل چاہا۔
چوٹی پر پہنچ کر پتا چلا کہ نہ وہاں کوئی ڈھنگ کا ریسٹورنٹ ہے نا ہی مناسب پارکنگ۔ تنگ سڑک پر جگہ جگہ گاڑیاں پارک کر کے اسے مزید تنگ اور مشکل بنا دیا گیا تھا۔
یہاں سے ہم نے فوراً واپس مڑنے میں عافیت جانی مگر سڑک پر گاڑی واپس موڑنا بھی ایک ناممکن امر تھا ایسے میں پھر ایک پولیس کے بھائی نے ٹریفک روک کر گاڑی موڑنے میں مدد دی۔
بس پھر کیا تھا اسلام آباد کی طرف سے نیت کر کے چل پڑے راستے میں علی کا صرف ایک اصرار تھا ’بابا پلیز کلمے والی سڑک سے واپس نہیں جانا‘۔ اس کے باربار کہنے پر بتانا پڑا کہ ’بیٹا یہاں ہرسڑک ہی کلمے والی ہے۔‘
واپسی پر یہ خیال غالب رہا کہ پاکستان کو قدرت نے واقعی دلکش نظاروں سے نوازا ہے مگر ایسے مقامات پر سیاحوں کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور سڑکیں کلمے والی ہی ہیں۔ اس موقع پر یہ بھی ثابت ہوا کہ کہ سیاحت کے لیے عید کے دنوں کا انتخاب پورے خاندان کے لیے عذاب ہوتا ہے۔