وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے فیصلے پر 10 ماہ گزرنے کے باوجود کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ منصوبہ تاحال التوا کا شکار ہے تو شاید غلط نہ ہو گا۔
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی وعدوں میں عمران خان کے وزیراعظم ہاؤس میں رہائش نہ رکھنے، اسے یونیورسٹی میں تبدیل کرنے اور صوبوں میں گورنر ہاؤسز کی دیواریں گرانے کے دعوے کیے تھے۔
لیکن کبھی ’سکیورٹی خدشات‘ اس منصوبے کے آڑے آ گئے تو کبھی ’قانونی پیچیدگیوں‘ کے باعث یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔
وفاقی کابینہ اس منصوبے کی منظوری تو دے چکی ہے، تاہم ابھی تک پارلیمنٹ سے اس کی منظوری نہیں لی جا سکی۔
مزید پڑھیں
دوسری جانب اس مجوزہ یونیورسٹی کے قیام کا جائزہ لینے کے لیے گذشتہ برس وزیراعظم ہاؤس میں ایک کانفرنس کے انعقاد پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے گئے۔ اس کانفرنس میں ملکی اورغیر ملکی ماہرین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
پہلے حکومت نے اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی (آئی این یُو) کے منصوبے پر عمل درآمد کی ذمہ داری وفاقی وزارت تعلیم کو سونپی، پھر یونیورسٹی کی جگہ سٹیٹ آف دی آرٹ ریسرچ سنٹر بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور اب یہ منصوبہ وفاقی وزارت تعلیم سے لے کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو سونپ دیا گیا ہے۔

اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ منصوبہ وفاقی وزارت تعلیم سے لے کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو دے دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی نہیں بلکہ فیوچر ٹیکنالوجیز کو مدنظر رکھ کر سٹیٹ آف دی آرٹ ریسرچ سنٹر بنا رہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں ایک ہزار کنال اراضی مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں سال اس منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ موجودہ بجٹ میں تو اس منصوبے کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی، فواد چوہدری نے کہا کہ ریسرچ سنٹر کے لیے وفاقی بجٹ سے رقم نہیں لی جائے گی بلکہ چین سے ملنے والی 30 ارب روپے کی گرانٹ سے یہ منصوبہ شروع کیا جائے گا۔
دوسری جانب سائنس و ٹیکنالوجی کی ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عطا الرحمان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے بیان سے اختلاف کیا اور کہا کہ فی الحال سنٹر کے لیے چین سے 30 ارب روپے ملنے والی بات درست نہیں۔ منصوبے کے لیے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں رقم رکھی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

ڈاکٹر عطا الرحمان نے وضاحت کی کہ ’مین وزیراعظم ہاؤس کو نہیں چھیڑا جائے گا بلکہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر ایک ہزار کنال اراضی مختص کی جائے گی۔ اس کی منظوری کے بعد تین سے چار ماہ کے اندر منصوبے کے لیے کچھ فنڈز ملنا شروع ہو جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ایک نہیں بلکہ پانچ سے چھ ریسرچ سنٹرز قائم کیے جائیں گے جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، انرجی اور بائیو ٹیکنالوجیز سے متعلق تحقیقاتی کام ہوگا۔‘
ان کے مطابق سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ سینٹر کا داخلی راستہ وزیراعظم ہاؤس کے عقبی حصے میں رکھا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان میں یونیورسٹیوں کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے قائم مقام ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ محمد اصغر نے اردو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایچ ای سی کا اب اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں، یہ منصوبہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو دے دیا گیا ہے۔‘
وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے (سی ڈی اے) نے بھی اسلام آباد کے ریڈ زون میں اس منصوبے پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس کے لیے وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
