Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیناؤں تک معلومات کی روشنی پہنچانے والا نابینا زاہد عبداللہ

سرگودھا کے چھوٹے سے گاؤں چاواہ میں 14 جون 1968 کوعزیزعائشہ کے گھر پہلا بچہ پیدا ہوا تو ان کی برسوں پرانی خواہش پوری کرنے کا وقت آ گیا۔
ان کی ہم عمر خواتین اور سہیلیاں اپنے پہلے بیٹے کی پیدائش پر انہیں فوجی افسر، اعلیٰ حکومتی عہدیدار، ڈاکٹر، بڑا کاروباری آدمی یا ایک جاگیردار بنانا چاہتی تھیں لیکن عزیزعائشہ کا خواب تھا کہ ان کا بیٹا انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ کیونکہ ان کو خود ادب سے بہت شغف تھا۔
لیکن جب ننھے زاہد کے پہلے پہلے لمس کے بعد انہوں نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کیا، تو ان کو اپنے خواب بکھرتے نظرآئے۔
اس کی بینائی مکمل نہیں تھی، اور وہ رات کو بالکل نہیں دیکھ سکتا تھا۔ دن میں بھی اس کوصرف سامنے کی چیزیں دکھتی تھیں، اور وہ اپنے ارد گرد بالکل نہیں دیکھ سکتا تھا۔ 

 زاہد عبداللہ 28 سال کے ہوئے توانکی بینائی میں واضح کمی ہونا شروع ہو گئی۔ تصویر بشکریہ زاہد عبداللہ

عزیزعائشہ کی تودنیا ہی لٹنے لگی۔۔۔۔

جب زاہد سکول جانے کی عمر میں پہنچے تو خاندان کے سبھی بڑوں نے ان کے سکول جانے کی مخالفت کی کیونکہ ان کے خیال میں وہ پڑھ نہیں سکتے تھے۔ 
ان کو زیادہ سے زیادہ مدرسے بھیجا جا سکتا تھا جہاں وہ قرآن حفظ کرلیتے۔
لیکن عزیز عائشہ ڈٹ گئیں۔۔۔
وہ ہرصورت اپنے بچے کو انگریزی ادب پڑھانا چاہتی تھیں۔
سو انہوں نے سارے خاندان کی مخالفت کے باوجود اپنے ’جزوی طور پر بینا‘ بیٹے کو سکول میں داخل کروا دیا۔ 

زاہد عبداللہ نے اپنی والدہ کا خواب پورا کرتے ہوئے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرلیا۔ تصویر اردو نیوز

زاہد کو ماں کے جذبے کا بخوبی احساس تھا۔ اور انہوں نے پڑھائی میں جی لگانے کی بھرپور کوشش کی۔
کم بینائی نے ان کی پڑھائی کو بہت متاثر کیا، لیکن مشکلات کے باوجود وہ میاں چنوں کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے، جہاں بارہویں جماعت کی تعلیم کے لیے انہیں روزانہ قصبہ عبدالحکیم سے میلوں پیدل چل کر جانا پڑھتا۔ 
پھر بی اے کی تعلیم کے لئے وہ کبھی  بسوں سے لٹک کر اور کبھی ان کی چھتوں پر بیٹھ کر خطرناک سفر طے کر کےملتان جاتے رہے۔
ان کے دوست احباب اور رشتے دار انہیں منع کرتے کہ نظر کی کمی کے باعث وہ حادثے کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن زاہد اپنی ماں کا خواب پورا کرنے کے لیے جان پرکھیلنے کو تیار تھے۔ 
اسی دوران ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ ان کی مدہم سی بینائی بھی جلد مکمل طور پر بجھ جائے گی۔
یہ خبر قیامت کی خبر تھی۔

زاہد عبداللہ کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں روشنی کی کرن نظرآئی اور انہوں نے اس کو اپنا اوزار بنا لیا۔ تصویر بشکریہ زاہد عبداللہ 

لیکن زاہد نے ہمت نہ ہاری

‘زاہد عبداللہ کہتے ہیں ’دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک ہر مسئلے کا حل ڈھونڈنے والے اور دوسرے ہر بات میں مسئلہ ڈھونڈنے والے۔ میں نے ہمیشہ پہلی طرح کا آدمی بننے کی کوشش کی۔
زاہد عبداللہ نے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا شروع کیا۔
‘میں نے فیصلہ کیا کہ جتنا اپنی آنکھیں استعمال کرسکتا ہوں، کروں گا، دنیا کے رنگ دیکھوں گا، دوستوں کو، عزیزوں کو، دیکھوں گا۔ جب تک ممکن ہوا، ایسا ہی کروں گا۔’
انہوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم نو کیا۔
پھرایک دن آیا کہ اپنی ماں کے زاہد عبداللہ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرلیا۔
لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کی مہلت ختم ہونا شروع ہو گئی۔
وہ 28 سال کے ہوئے توانکی نظر میں واضح کمی ہونا شروع ہو گئی۔ اوراگلے چار سالوں میں مکمل ختم ہو گئی۔
‘مجھے دوستوں کے چہرے نظرآنا بند ہو گئے، میری آنکھوں کے منظرسیاہ ہو گئے، مجھے اس روز دنیا مکمل طور پر بجھتی نظر آئی۔’
یہ وہ وقت تھا جب اکیسویں صدی کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی عام ہونے لگی تھی۔

 نجی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ دو سال کے اندرڈیویلپمنٹ سٹڈیزمیں ماسٹرز کی ایک اور ڈگری لے لی۔ تصویر اردو نیوز 

زاہد عبداللہ کو اس ٹیکنالوجی میں روشنی کی کرن نظرآئی۔
 انہوں نے اپنی ہمت کو پھر سے مجتمع کیا اورکمپیوٹر کو اپنا اوزار بنا لیا۔ مختلف کمپیوٹر سافٹ ویئراستعمال کرتے ہوئے انہوں نے بغیر دیکھے تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔
اب وہ وقت بھی آ گیا تھا جب انہیں اپنے اور اپنے خاندان کے اخراجات چلانے کے لیے نوکری کی ضرورت تھی۔
انہیں خانیوال میں ملازمت نہ ملی تو انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا رخ کیا۔
اسلام آباد میں انہیں چند نجی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کی نوکری توملی لیکن نابینا پن یہاں بھی ان کے لیے رکاوٹ بن گیا۔
انہوں نے پھرکمپیوٹرکی مدد لی۔ 
زاہد عبداللہ کی زندگی میں آنیوالی مشکلات نے اب تک انہیں سکھا دیا تھا کہ زندہ رہنا جہد مسلسل کا نام ہے۔
لہٰذا انہوں نے یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ دو سال کے اندرڈیویلپمنٹ سٹڈیزمیں ماسٹرز کی ایک اور ڈگری لے لی۔
اس کے بعد انہیں ایک غیرسرکاری تنظیم میں ملازمت ملی جہاں ان کا کام مختلف سرکاری اداروں سے معلومات حاصل کرنے میں مدد دینا تھا۔
لیکن یہاں ایک نیا امتحان ان کا منتظرتھا۔ کوئی سرکاری عہدیدار بھی معلومات دینے پر تیار نہیں تھا۔ 
جب زاہد مختلف دفتروں کے چکر کاٹ کاٹ کر، ای میلیں بھیج بھیج کراورفون کرکرکے تھک گئے اور انہیں کہیں سے بھی بآسانی معلومات میسرنہیں ہوئیں، توانہوں نے اپنی زندگی کا ایک نیا مقصد بنا لیا۔

زاہد نے یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ دو سال کے اندرڈیویلپمنٹ سٹڈیزمیں ماسٹرز کی ایک اور ڈگری لے لی۔ تصویر بشکریہ زاہد عبداللہ

معلومات تک رسائی کا مقصد

انہوں نے اطلاعات تک عوام کی رسائی کے لیے باقاعدہ مہم شروع کر دی اورعوامی سطح پر اس حق کی بازیابی کے لیے آگاہی مہم کا آغازکردیا۔
 اگلے 15 سال ان کے اس کام میں گزرے۔ اخبارات میں مضامین لکھے، تربیتی ورکشاپس، سیمینارز، آگاہی جلسے اور مشاورتی بیٹھکیں منعقد کیں۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کے ہر شہر گئے اور بین الاقوامی فورمز پر بھی آواز اٹھائی۔ نابینا پن کہیں بھی ان کی راہ میں حائل نہیں ہوا۔
انہوں نے سرکاری اور عوامی سطح پر یکساں طور پر آگاہی پیدا کی کہ کیوں حکومت کا عوام کو اپنی پالیسیوں اور اپنی کارکردگی سے آگاہ رکھنا ضروری ہے اورکیسے یہ عوام کا آئینی حق ہے کہ وہ جانیں کہ ان کے ٹیکس کے پیسوں سے حکومت کیا کرتی ہے اور کیسے کرتی ہے؟ نوکریاں کن کو ملتی ہیں اور کیوں ملتی ہیں؟ ٹھیکے کن کو ملتے ہیں؟ پالیسی کیسے بنتی ہے؟ فیصلے کیسے ہوتے ہیں؟
زاہد عبداللہ کے آواز اٹھانے پردوسری غیرسرکاری تنظیمیں بھی سامنے آنے لگیں، جن کا اتحاد بنا کر انہوں نے حکومت  کو مجبور کیا کہ وہ اطلاعات تک عوام کی رسائی کے لیے قانون سازی کرے  
بالآخر 2013 میں پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں قوانین بن گئے۔ 2017 میں وفاق میں بھی اطلاعات تک عوامی رسائی کا قانون بن گیا۔ 
یہ زاہد عبداللہ کی انگریزی ادب میں ماسٹرز سے بھی بڑی کامیابی تھی۔
لیکن اس سے بھی بڑی کامیابی انہیں تب ملی جب اس قانون کے تحت ’پاکستان انفارمیشن کمیشن‘ کا قیام عمل میں لایا گیا اور زاہد عبداللہ اس کے ممبر بن گئے۔ 
‘مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی جب اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے مجھے کہا کہ آپ کے کام کی وجہ سے میں آپ کا نام کمیشن کے ممبر کے طور پر تقرری کے لیے وزیراعظم کو آپ کا نام بھیج رہا ہوں۔’

زاہد عبداللہ نے اطلاعات تک عوام کی رسائی کے لیے باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے۔ تصویر بشکریہ زاہد عبداللہ

زاہد عبداللہ نے 18 نومبر 2018  کو بطورانفارمیشن کمشنر چارج سنبھالا۔ اس کے قواعد و ضوابط ترتیب دیے، بغیر سٹاف اور بجٹ کے ستر کے قریب وفاقی انفارمیشن آفیسرز کی تربیت کی اورشکایات پر کاروائی شروع کر دی۔ 
انہوں نے 1000 سے زیادہ حکومتی اہلکاروں اور درجنوں صحافیوں کی بھی تربیت کی کہ اطلاعات کے لیے عوامی درخواستوں کا کس طرح جواب دیں، تحقیقی صحافت کیسے کریں اورعوام تک حقائق کیسے پہنچائیں۔
یہ سب ایسے وقت میں ہوا جب ابتدائی چھ ماہ میں بجٹ تو درکنار، زاہد اور ان کے عملے کو تنخواہ تک نہیں ملی۔ 
زاہد عبداللہ کہتے ہیں کہ عوام کو معلومات تک رسائی کا حق ملنے سے ان کی زندگی کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔ اور انہیں اپنے نابینا ہونے کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔
‘آج کوئی بھی انفارمیشن کمیشن کے پاس معلومات نہ ملنے کی شکایت لے کر آئے تو ہم اسے معلومات لے کر دیں گے۔ اورعدم تعاون پر حکومتی اداروں کے خلاف کاروائی بھی کریں گے۔’
زاہد عبداللہ نے اپنی جدوجہد میں نہ تو اپنی بینائی کو کمزوری بنا یا اور نہ ہی لوگوں سے ملنے والے معزوری کے طعنوں کو، لیکن ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سبھی معزوروں کے لیے کامیابی آسان نہیں ہے۔
‘جب آپ معذور ہوتے ہیں تو آپ کے بچوں کو بھی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ کبھی ساتھی بچے کہہ دیتے ہیں اوہو تمھارے بابا کو تو نظر نہیں آتا۔’’میری والدہ کو بھی باتیں سننا پڑیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ معذوری شاید گناہوں کی سزا ہے۔ اس طرح کے روئیے گھٹن کا احساس دیتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں ذہنی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ معذوری کسی گناہ کی سزا نہیں اور نہ ہی آزمائش۔‘

شیئر: