کیا گھروں میں شیر پالنا امیر اور طاقتور ہونے کی نشانی ہے؟
کیا گھروں میں شیر پالنا امیر اور طاقتور ہونے کی نشانی ہے؟
منگل 2 جولائی 2019 3:00
کہتے ہیں شوق کا کوئی مول نہیں اور یہ بات پاکستان کے شہر کراچی کے رہائشی بلال منصور خواجہ پر صادق آتی ہے۔ 29 سالہ صنعتکار نے اپنے گھر میں ایک نجی چڑیا گھر قائم کر رکھا ہے جس میں انہوں نے انتہائی نایاب نسل کے غیر ملکی سفید شیر پال رکھے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلال منصور خواجہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سفید شیروں سمیت نایاب نسل کے کچھ جانور اور پرندے موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت آپ بیرون ملک سے باآسانی نایاب نسل کے جانور درآمد کر سکتے ہیں لیکن ملک کے اندر اس حوالے سے قوانین نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان میں شیروں کو گھروں میں رکھنا دولت اور طاقت کی ایک نشانی بن چکی ہے اور اس حوالے سے ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کراچی شہر میں اس شوق کا زیادہ رجحان پایا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بے شمار ویڈیوز موجود ہیں جن میں کراچی کے امیر کبیر شہری اپنی بڑی بڑی لینڈ کروزرز میں فرنٹ سیٹوں پر شیروں کو بٹھائے نظر آتے ہیں جبکہ میڈیا میں بعض شہریوں کی گرفتاریوں کی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں جو کھلے عام ایسے جانوروں کو سیر و تفریح کے لیے عوامی مقامات پر لے جاتے ہیں۔
بلال منصور خواجہ کہتے ہیں کہ صرف کراچی شہر میں اندازاً 300 شیر موجود ہیں جو لوگوں نے اپنے باغات، فارم ہاؤسز اور گھروں کی چھتوں پر پنجروں میں پال رکھے ہیں۔
انہوں نے خود کراچی جیسے بڑے اور گنجان آباد شہر میں نو ایکڑ اراضی اپنے جانوروں اور پرندوں کی رہائش کے لیے مختص کر رکھی ہے جن میں شیر، گھوڑے، زیبرے اور نایاب نسل کی چڑیا شامل ہیں۔
بلال منصور خواجہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں 800 مختلف اقسام کے شیر اور چیتوں سمیت چار ہزار سے زائد نایاب جانور خریدے ہیں۔ وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کا یہ شوق سٹیٹس سمبل یا لوگوں کو اپنی شان و شوکت دکھانے کے لیے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ان کی جانوروں سے محبت کے اظہار کا ایک انداز ہے۔
بلال منصور خواجہ نے قدرے جوشیلے انداز میں کہا کہ ’ہم پاکستانیوں کا ایک مسئلہ ہے کہ جب ہمارا دل نرم ہوتا ہے تو بہت نرم ہوتا ہے اور جب سخت ہوتا ہے تو بہت سخت ہوتا ہے۔‘
بلال کے نجی چڑیا گھر میں جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے 30 ملازمین موجود ہیں جو کہ مختلف شفٹوں میں کام کرتے ہیں جبکہ انہوں ںے جانوروں کے چار معالجوں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں۔
بلال منصور خواجہ نے یہ تو نہیں بتایا کہ ان کے نجی چڑیا گھر پر کتنے اخراجات آتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں حالیہ برسوں میں اپنے جانوروں کے پنجوں سے جو چھوٹے موٹے زخم آئے ہیں وہ زخم بہت قیمتی ہیں۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہر زخم کے ساتھ جانوروں کے ساتھ ان کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
شیروں کی فارمنگ
کراچی میں بیرون ملک سے شیر اور دیگر جانور درآمد کرنے والے ایک بڑے ڈیلر علیم پراچہ کا کہنا ہے کہ وہ صرف 48 گھنٹوں کے اندر قانونی طور پر 14 لاکھ روپے (نو ہزار ڈالرز) کے عوض سفید شیر فراہم کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں شیروں کی افزائش کا کام بہت اچھا چل رہا ہے اور شہر میں جانوروں کی افزائش کرنے والے ایسے لوگ موجود ہیں جو فوری طور پر گاہکوں کو شیر فراہم کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں جانوروں کی مقامی نایاب اقسام کی بہترین انداز میں حفاظت کی جاتی ہے لیکن ملک میں درآمد کیے گئے غیر ملکی جانوروں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
محکمہ وائلڈ لائف سندھ کے سربراہ مظہر جاوید کا کہنا ہے کہ جانوروں کی افزائش سے متعلق قانون خاموش ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ٹیکنیکل ایڈوائزر عظمیٰ خان کہتی ہیں کہ نجی چڑیا گھر تو کیا یہاں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے چڑیا گھروں کی نگرانی کا بھی کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ پاکستان میں بے شمار لوگ نجی طور پر جانوروں کی افزائش نسل کرتے ہیں تاہم وہ بہت مشکوک ہوتے ہیں۔
قانون خاموش ہے
بلال منصور خواجہ جیسے مالدار افراد کے پاس تو وسائل ہیں اور وہ اپنے جانوروں کو اچھی غذا فراہم کر سکتے ہیں تاہم سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔
کراچی میں جانوروں کی معالج اسما گھی والا کا کہنا ہے کہ ان کے کلینک پر زیادہ تر ایسے شیر لائے جاتے ہیں جو کیلشیئم کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے حالیہ برسوں میں 100 سے 150 شیروں کا علاج کیا ہے۔
اسما کے مطابق کیلشیئم کی کمی والے شیروں کی ہڈیاں بہت کمزور ہو جاتی ہیں اور اگر وہ کوئی چھلانگ لگائیں تو زخمی بھی ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔
بلال منصور خواجہ اور علیم پراچہ اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں کہ وہ نایاب نسل کے جانوروں اور پرندوں کو ان کے قدرتی ماحول سے نکال کر اور پاکستان میں انہیں پالنے کا کوئی نقصان دہ کام کر رہے ہیں۔ بلال کا کہنا ہے کہ جانوروں کی بعض نایاب نسلیں یا معدوم ہو چکی ہیں یا معدوم ہونے جا رہی ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کی آئندہ آنے والی نسلیں ان جانوروں کو نہ دیکھ سکیں۔
دوسری جانب ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ٹیکنیکل ایڈوائزر عظمیٰ خانایسے دلائل کو نہیں مانتیں، انہوں نے واضح کیا کہ جانوروں کو قید میں رکھنا ان کے جنگل کے ماحول کا متبادل نہیں ہو سکتا۔