اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر دو کے جج ارشد ملک کو ہٹائے جانے کی سفارش پر قانون ماہرین کی منقسم رائے سامنے آئی ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق سینیئر جج وجیہہ الدین احمد نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو ہٹانے کا معاملہ انتظامی کارروائی ہے اور معمول میں ایسی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ چونکہ عوامی دلچسپی کا حامل ہے اس لیے سامنے ہے ورنہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔
’جج کو ہٹانے کا فیصلہ العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے پر اثر انداز نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ عدالتی اور قانونی معاملہ ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا استحقاق ہے کہ وہ اسے متعلقہ کیس کا حصہ بنائے یا نہیں۔‘
جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ متعلق فریق ان ویڈیوز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں لے کر جائے اور وہ ان کے فراینزک آڈٹ کا حکم دے اور جو بھی نتیجہ سامنے آئے اس کی بنیاد پر جج کے کیرئیر کا فیصلہ ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ العزیزیہ کیس کا فیصلہ پھر بھی دستیاب شواہد پر ہی ہوگا البتہ اگر جج نے شواہد غلط ریکارڈ کیے ہوں تو وہ الگ بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ فی الوقت یہ دو الگ الگ ندیاں ہیں جو مستقبل میں کہیں جا کر مل بھی سکتی ہیں۔

ماہر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ اگر اس بیان حلفی اور وضاحتی بیان کو سی آر پی سی کے شق 228 کے تحت شہادت نہیں بنایا جاتا تو اس کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
انھوں نے کہا کہ شہادت نہ بنائے جانے کی صورت میں یہ بیان حلفی اور بیان محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔
ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ جج صاحب کو ہٹانے کا العزیزہ کیس کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ ایک قانونی اور دوسرا انتظامی معاملہ ہے اور جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ جج ارشد ملک کو ہٹانے سے العزیزیہ کا فیصلہ ختم ہو گیا ہے اور اس کا نئے سرے سے ٹرائل ہونا چاہیے وہ قانونی طور پڑ غلط کہہ رہے ہیں۔
