سابق جج لاہور ہائی کورٹ جسٹس ریٹائرڈ ملک محمد قیوم، تصویر: اے ایف پی
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون کو خط لکھا ہے۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں متنازع ہونے کے بعد ججز یا تو خود مستعفی ہو گئے تھے یا انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
اپریل 2019 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس فرخ عرفان اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
جسٹس فرخ عرفان کا نام پانامہ پیپرز میں سامنے آیا تھا جس کے مطابق وہ آف شور کمپنی کے مالک تھے۔ جسٹس فرخ عرفان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیر سماعت تھا جس کے بعد انہوں نے اپنا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اکتوبر 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کو اختیارات کے ناجائز استعمال اور حساس اداروں کے خلاف تقاریر پر سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کیا تھا ۔ جسٹس شوکت عزیر صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور حساس ادارے آئی ایس ائی کے خلاف تقاریر کرنے پر ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنی تقاریر میں حساس اداروں پر عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔
فروری 2017 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس مظہر اقبال سندھو نے کرپشن الزامات کے بعد مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس مظہر اقبال پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کرپشن الزامات کے حوالے سے ریفرنس زیر سماعت تھا۔ سماعت سے دو دن قبل ہی جسٹس مظہر اقبال سندھو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔
سنہ 2001 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک محمد قیوم اور جسٹس راشد عزیز اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ 1999 میں دونوں ججز کے اوپر بے نظیر بھٹو کرپشن کیس میں جانبدار ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ 2001 میں سپریم کورٹ میں یہ الزامات ثابت ہونے کے بعد دونوں ججز نے اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی ۔ جسٹس راشد عزیز اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بطور جج تعینات تھے۔
سینیئر قانون دان اکرام چوہدری ملکی عدالتی تاریخ میں ججز کے برطرفیوں اور استعفوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی متنازع ججزکو عہدے سے ہٹایا گیا لیکن جب تک مکمل انکوائری نہیں ہو گی تو اس قسم کے واقعات روکے نہیں جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی متنازع شخصیت کے عہدے پر فائز رہنے کی گنجائش نہیں تاہم ملکی عدالتی نظام کو مشکوک کرداروں سے صاف کرنے کے لیے تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔
سابق وفاقی وزیر قانون خالد رانجھا نے کہا کہ ماضی میں بے شمار ججز کو متنازع ہونے پر ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ملک محمد قیوم کے واقعے کی مکمل تحقیقات ہوتیں تو آج ملکی عدالتی نظام کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔
یاد رہے کہ مریم نواز کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے بھی اپنا بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے ویڈیو میں کی گئی گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ تاہم جج ارشد ملک کے بیان نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا جس کے بعد معاملہ مزید متنازع ہو گیا تھا۔