وادی سوات جہاں گرمیوں میں سیاحوں کا مسکن بن جاتی ہے وہیں سوات کے آڑو بھی اپنے ذائقے کا جادو جگاتے ہیں۔ نو اقسام میں پیدا ہونے والا آڑو ملک بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔
بہتے دریاؤں، سر سبز پہاڑوں، ٹھنڈے چشموں اور لہلہاتے باغوں میں گھری وادی سوات جہاں گرمیوں میں ملک بھر کے سیاحوں کا مسکن بن جاتی ہے وہیں اس موسم میں یہاں کے آڑو ملک بھر میں اپنے ذائقے کا جادو جگاتے ہیں۔
جونہی گرمیوں کا موسم آتا ہے، پوری وادی میں درختوں کی ڈالیاں آڑو کے پھل سے لد جاتی ہیں۔
یوں تو آڑو ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے لیکن سوات کی آب و ہوا اس کی پیداوار کے لیے نہایت موزوں ہے اور دریائے سوات کا ٹھنڈا پانی اور شفاف آب و ہوا سوات کے آڑو کو دیگرعلاقوں کے پھلوں سے ممتاز کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں پیدا ہونے والا آڑو انتہائی لذیذ اور خوش ذائقہ ہوتا ہے جو ملک بھر میں پسند کیا جاتا ہے۔
سوات میں آڑو کی نو اقسام پیدا ہوتی ہیں۔ پہلی قسم مئی کے مہینے میں تیار ہونا شروع ہو جاتی ہے جبکہ دوسری اقسام ستمبر کے آخر تک مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں۔
پاکستان ہارٹی کلچر ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کونسل کے مطابق اس وقت سوات میں 15 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر آڑو کے باغات پھیلے ہوئے ہیں۔
کونسل کے مطابق سال 2007 اور 2008 میں سوات میں پھلوں کی کاشت کا کل رقبہ 13119 ہیکٹر تھا، تاہم وادی میں شرپسندی آنے کے بعد ایسے خاندان جو ان باغات کی وجہ سے انتہائی خوشحال تھے ان کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔
طالبان کے زوال کے بعد جب ان کی زندگی بحال ہونے لگی تو 2010 کے تباہ کن سیلاب نے ہزاروں ایکڑ اراضی پر پھیلے ہوئے آڑو کے باغات برباد کر دیے۔
اب سیلاب کے نو سال بعد نہ صرف یہ کہ یہ باغات دوبارہ سے اپنے جوبن پر آ گئے ہیں بلکہ ان میں 30 سے 40 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے۔
سوات فروٹ اینڈ ویجٹیبل ایسوسی ایشن کے مطابق سوات میں آڑو کی پیدوار تقریباً سالانہ چار لاکھ ٹن سے زائد ہےجو کہ پاکستان میں آڑو کی مجموعی پیداوار کا ستر فیصد ہے۔
بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ سوات سے روزانہ آڑو کے 200 سے زائد ٹرک ملک کے دیگر شہروں لاہور، اسلام آباد، گوجرانوالہ، کراچی اور پشاور جاتے ہیں۔
سوات کی وادیوں میں سڑکوں کے کنارے لگے خوبصورت سٹالز پر بکنے والے سینکڑوں کلو گرام آڑو اس سے الگ ہیں جو سیاح بڑے شوق سے یہاں سے خریدتے ہیں اور اپنے آبائی علاقوں کو لے کر جاتے ہیں۔
سوات کے علاقے عالم گنج میں ایک باغ کے مالک شجامت خان کا کہنا ہے کہ بہت سارے سیاح ان کے باغ میں آکر درختوں سے اترے ہوئے تازہ آڑو خریدنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق آڑو کی فروخت سے سوات کو سالانہ تین ارب روپے سے زائد رقم مل رہی ہے، جس سے دو لاکھ سے ذائد خاندان مستفید ہو رہے ہیں۔
موسم گرما میں سیزن کے دوران آڑو کےایک عام باغ میں 50 سے 100 مزدور کام کرتے ہیں جن کی کم سےکم اجرت 600 روپے یومیہ ہوتی ہے۔
مٹہ کے ایک گاؤں میں سڑک کنارے باغ کے مالک عقیل نے بتایا کہ آڑو کا سیزن پانچ ماہ تک چلتا ہے اور نو اقسام میں پیدا ہونے کے باعث ان کی قیمت میں کوئی زیادہ کمی نہیں آتی۔ یہ علاقے کے لوگوں کے لیے خوشحالی کا باعث ہے۔
’’یہ منافع بخش پھل ہے اس منافع کے علاوہ باغات میں شاخ تراشی سے بھی کافی لکڑی حاصل ہوجاتی ہے جس سے پورا سال ایندھن کے طور پرگھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘