Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہاجرین کا مسئلہ: ’جس عورت کو آپ تلاش کر رہے ہیں وہ میں نہیں ہوں‘

بی جے پی کی انتخابی مہم میں بھی مسلم کمیونٹی اور بنگالی بولنے والے بنگلہ دیشیوں کو غیر ملکی ہی تصور کیا جاتا رہا۔ فوٹو روئٹرز
تین سال قبل انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام  کے ایک قصبے بیشن پورمیں پولیس مدھومالا داس نامی خاتون کو تلاش کر رہی تھی جس کو مقامی عدالت نے غیر قانونی مہاجر قرار دے رکھا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس تلاش کے دوران 2016 کی ایک صبح بیشن پور پہنچ کر 59 سالہ مدھو بالا مینڈل کو حراست میں لے لیا جو بانسوں سے بنی اپنی جھونپڑی کے باہر آگ جلا رہی تھیں۔ گرفتاری کے بعد بوڑھی اور جسمانی طور پر کمزور تقریباً چار فٹ قد کی اس بنگالی بولنے والی خاتون نے ڈھائی سال حراست میں گزارے۔ گذشتہ ماہ انہیں تب رہائی ملی جب ایک نئے پولیس آفیسر نے ان کے بارے میں از سر نو تفتیش کی۔

مدھوبالا مینڈل کو پولیس نے 2016 میں ان کی جھونپڑی کے باہر سے حراست میں لیا تھا۔ تصویر: روئٹرز

حال ہی میں مدھو بالا نے اپنی جھونپڑی میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’میں نے پولیس کو بتانے کی کوشش کی کہ جس عورت کو وہ تلاش کر رہے ہیں وہ میں نہیں ہوں، میں انڈین شہری ہوں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس ثبوت بھی موجود ہیں مگر پولیس نے میری ایک نہ سنی اور گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی۔‘
مقامی سماجی کارکنوں اور وکلا کا کہنا ہے کہ آسام میں اس طرح کے واقعات معمول کی بات ہے بلکہ یہاں ایک طویل عرصے سے غیر قانونی مہاجروں، خاص طور پر بنگالی بولنے والے مسلمانوں کے خلاف انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے حامیوں کی جانب سے تحریک چلائی جا رہی ہے۔ یہ وہی آسام ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔
بی جے پی کی انتخابی مہم میں بھی مسلم کمیونٹی اور بنگالی بولنے والے بنگلہ دیشیوں کو غیر ملکی ہی تصور کیا جاتا رہا، چاہے وہ انڈیا میں پیدا ہوئے ہوں یا صدیوں سے یہاں قیام پذیر ہوں۔
آئندہ سال کے آخر میں آسام میں رہائش پذیر رجسٹرڈ افراد کی فہرست شائع کی جائے گی جو 2015 سے تیار کی گئی ہے۔ اس لسٹ میں  میں سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد شامل ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ ان کو اپنے آپ کو ریاست آسام کا شہری ثابت کرنا پڑے گا، وگرنہ مینڈل کی طرح انہیں بھی مسائل کا سامنا کرنا ہو گا۔

پولیس نے مدھومالا داس کی جگہ مدھو بالا مینڈل کو حراست میں لے لیا تھا۔ تصویر: روئٹرز

اس لسٹ کے شائع ہونے کے بعد گرفتاریوں کا سلسسلہ شروع ہونے کا امکان نہیں کیونکہ ریاست کی جیلوں میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ افراد موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر افراد بنگالی زبان بولتے ہیں اور بنگلہ دیش بھی ایسے غیر ملکی افراد کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ جس کے باعث ان کو حکومتی امداد، ووٹ کے حق، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
یہ مسئلہ آسام تک محدود نہیں
گزشتہ ہفتے مودی حکومت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی ان غیر قانونی مہاجروں کو انڈیا کے لیے دیمک قرار دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ حکومت اس سلسلے میں ملک بھر میں شہریوں کی چھان بین کرے گی اور ایسے افراد کو ملک بدر کر دیا جائے گا جن کے پاس انڈین شہری ہونے کا ثبوت نہیں ہو گا۔
دوسری جانب انڈین حکومت ایسے مہاجروں کو اپنے ملک میں خوش آمدید کہہ رہی ہے جو ہندو، سکھ، یا بدھ مت مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، شاید اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو غیر محفوظ کیا جا سکے۔ امیت شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی حکومت غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے والے افراد کو روکنا چاہتی ہے اور ایسے افراد کو ملک بدر بھی کیا جائے گا لیکن اگر یہ لوگ ہندو ہیں تو ایسے ہندو کو ملک میں خوش آمدید کہیں گے۔
مدھوبالا کو حراست میں لے کر مغربی آسام کے قصبے کوکراجھر کے ایک قید خانے میں رکھا گیا تھا۔ انڈیا میں انسانی حقوق کمیشن کے ایک ادارے نے گذشتہ برس قیدیوں کے اس مرکز کا دورہ کیا۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ ان قید خانوں میں بہت سے غیر قانونی مہاجر قید ہیں جن کو قیدیوں کے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
ریاست آسام کے وزیر اعلی کے دفتر نے اس حوالے سے روئٹرز کی جانب سے بھیجے  گئے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
ایک مقابی سرگرم شخص اجو رائے جس نے مینڈل کے کیس میں ان کو قید سے چھٹکارا دلوایا، کا کہنا ہے کہ اب بھی ریاست میں کئی بے گناہ افراد قید میں ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آسام کےزیادہ تر افراد پڑھے لکھے نہیں جس کے باعث ان کو معلوم نہیں کہ کون سے کاغذات ان کی شناخت کے لیے ضروری ہیں۔ آسام ویسے بھی ایک غریب ریاست تصور کی جاتی ہے اور اس کی وجہ بارشوں کے بعد یہاں ہر سال آنے والا سیلاب ہے جس میں کئی شہریوں کے کاغذات بہہ جاتے ہیں۔
انڈیا میں بنگالی دوسری بڑی زبان مانی جاتی ہے تاہم ریاست آسام کے لوگ آسامیز زبان بولتے ہیں۔ مقامی عدالت نے بنگالی زبان بولنے والے زیادہ تر افراد کو مہاجر قرار دیا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ان کے پاس موجود کاغذات میں تضاد پایا جاتا ہے۔

ریاست آسام میں بارشوں کے باعث ہر سال سیلاب سے تباہی مچ جاتی ہے۔ تصویر: روئٹرز

آسام میں اگر مزید رہائشیوں کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے تو یہاں نئی ہلچل مچ جائے گی اور صورتحال سے نمٹنے کے لیے ریاست بالکل تیار نہیں ہے۔ ایسی صورت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونے کا خدشہ ہے۔
ریاست کی چھ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے بڑھ چکی ہے۔ ریاستی حکومت کے مطابق 11 سو 33 غیر قانونی مہاجریں 25 مئی 2019 سے ان جیلوں میں قید ہیں۔ آسام پولیس کے سربراہ کلاسائیکیا نے روئٹرز کو بتایا کہ انہیں ابھی تک ہدایت نہیں ملی کہ جن لوگوں کے پاس شہریت نہیں ان کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں وہ عدالت عظمی کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں جہاں یہ کیس چل رہا ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ ان لوگوں کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا اس کے لیے ان کے لیے ایک الگ قصبہ آباد کرنا پڑے گا۔
مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جولائی 2018 کی لسٹ میں نام نہ آنے کے بعد اب تک 25 لوگ اسی مسئلے کی وجہ سے خود کشی کر چکے ہیں جس کی تصدیق روئٹرز نہیں کر سکا اور پولیس نے بھی اس کو شہریت والے معاملے کے ساتھ جوڑنے سے انکار کیا ہے۔
مدہو مالا داس کے کیس میں ان کو پہلے 1988 میں غیر قانونی شہری قرار دیا گیا تھا جبکہ دوسری بار 2016 میں پھر سے یہ فیصلہ سامنے آیا جس کے بعد مدھوبالا مینڈل کو گرفتار کیا گیا۔ مقامی پولیس سٹیشن کے ایک سینئر پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ مدہومالا کے کیس میں مدھوبالا کی گرفتاری گاؤں میں ایک ہی جیسے نام کی تین خواتین کے ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ مقامی عدالت نے ان کی گرفتاری کا حکم  دیا تھا جسے ان کو ماننا پڑا۔
مدھومالا داس کو مرے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے تاہم پولیس ان کی موت سے لاعلم ہے۔

شیئر: