حمزہ 2009ء سے 2010ء کے درمیان ایران میں سکونت پذیر رہے. فوٹو: اے ایف پی
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے اپنی ہلاکت سے قبل ایبٹ آباد کے کمپاﺅنڈ میں کئی برس بے چینی میں گزارے۔ وہ ہزاروں میل دور سکونت پذیر اپنے بیٹے حمزہ کے حوالے سے تشویش کا شکار رہے۔
سعودی اخبار الشرق الاوسط میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن اس وقت اپنے 23 سالہ بیٹے حمزہ کو خطوط لکھ کر ہدایت کرتے رہتے کہ انہیں کیا کرنا ہوگا اور اپنی سلامتی کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا ہوں گی؟
اخبار کے مطابق حمزہ نے اسامہ بن لادن کو جب آخری مرتبہ دیکھا تھا تب ان کی عمر تیرہ برس تھی۔ اسامہ نے حمزہ کو اس وقت نصیحت کی تھی کہ ’تم اپنے گھر سے باہر نہ نکلنا۔‘
اسامہ نے حمزہ کو پاکستان میں سفر سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ سفر اس دن کرنا جب مطلع ابر آلود ہو تاکہ ڈرون کو تعاقب میں مشکل پیش آئے۔
الشرق الاوسط کے مطابق اسامہ بن لادن نے اپنی حفاظت کے لیے انتہائی پیچیدہ سکیورٹی سسٹم بنا رکھا تھا۔ اسی تناظر میں اپنے بیٹے حمزہ کو ہدایت کی تھی کہ فضائی جاسوسی کو ناکام بنانے کےلیے انڈر پاس کے اندر گاڑی تبدیل کرتا رہے، کسی ایک گاڑی میں زیادہ فاصلے تک سفر نہ کرے۔
رپورٹ کے مطابق بن لادن اپنے بیٹے کی پرورش میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے اور وہ حمزہ کو اپنے حقیقی وارث کے طور پر تیار کرنے کی کوشش میں تھے ۔
اخبار نے تجزیہ نگاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کم از کم 2010 تک القاعدہ تنظیم کے کرتا دھرتا حمزہ بن لادن کو القاعدہ کی قیادت کے لیے خفیہ طور پر تیار کر رہے تھے۔
امریکہ کے تین انٹیلی جنس عہدیداروں نے حمزہ بن لادن کی موت سے متعلق تین کہانیاں پیش کی ہیں جن میں سے ایک کہانی کے مطابق حمزہ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے پہلے دو برسوں کے دوران قتل کر دیا گیا۔
اگر یہ کہانی درست ہے تو یہ القاعدہ تنظیم کے لیے کاری ضرب ثابت ہوگی۔
رپورٹ کے مطابق القاعدہ کی صفیں امریکہ کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے پہلے ہی کمزور تھیں۔ حمزہ کا قتل القاعدہ کو مزید کمزور کر دے گا۔
دہشتگرد تنظیم داعش کا قیام بھی القاعدہ پر اثر انداز ہوا۔ القاعدہ نے داعش کے مقابلے میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے رہنما حمزہ بن لادن سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے۔ وہ حمزہ سے القاعدہ کے انتظامی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی آس لگائے ہوئے تھے۔
حمزہ بن لادن عمر میں ایمن الظواہری سے بہت چھوٹے تھے۔ الظواہری کئی عشروں سے القاعدہ کی قیادت کرتے رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق داعش نے الظواہری کی ساکھ خراب کرنے کے لیے نوجوانوں میں یہ بات پھیلائی کہ وہ روایتی طرز کے رہنما ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الظواہری دہشتگردی کے واقعات کے لیے دنیا میں ایک بڑا نام تھے جس کی وجہ سے حمزہ ہی دنیا بھر میں انتہا پسندوں کو اپنی طرف لا سکتے تھے۔ اسی تناظر میں القاعدہ کے رہنما یہ امید کر رہے تھے کہ حمزہ القاعدہ فعال کریں گے۔ اور وہ داعش کے زیر اثر افراد کو بھی القاعدہ کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق انسداد دہشتگردی کے ماہر علی صوفان کا کہنا ہے کہ القاعدہ نے جان بوجھ کر حمزہ بن لادن کی موت کے واقعہ کو چھپایا۔ مصلحت یہ تھی کہ اگر حمزہ کی موت کا اعلان کر دیا گیا تو ایسی صورت میں القاعدہ کی رہی سہی ساکھ یا دہشت بھی ختم ہو جائے گی۔
علی صوفان نے جو حمزہ بن لادن کی زندگی پر ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں، نے کہا کہ ’حمزہ القاعدہ کی قیادت کے لیے تیار تھے، وہ اپنے والد کے پیغام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔‘
حمزہ بن لادن کے قتل کی گتھی شاید ہی کبھی سلجھ سکے۔ خود امریکی حکومت کو بھی نہیں معلوم کہ ان کی موت کس طرح ہوئی۔
امریکہ کے بعض سابق اور موجودہ عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دراصل مئی یا جون 2017 کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان امریکہ نے فضائی حملہ کیا تھا، اس میں حمزہ بن لادن زخمی ہو گئے تھے جبکہ ان کا بیٹا مارا گیا تھا۔
حمزہ بن لادن کی موت سے متعلق تیسری امریکی کہانی یہ ہے کہ دسمبر 2017ء میں فضائی حملے میں زخمی ہونے کے بعد ان کی موت واقع ہوئی۔
فروری میں امریکی دفتر خارجہ نے حمزہ بن لادن کی رہائش کا پتہ بتانے والے کے لیے 10لاکھ ڈالر کا انعام رکھا۔
رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس حکام کا خیال تھا کہ وہ مر چکے ہیں۔ انہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ حمزہ بن لادن کی موت واقع ہو چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ موت سے متعلق ابہام اپنی جگہ قائم ہے۔
القاعدہ کی روایت رہی ہے کہ وہ اس قسم کی خبروں پر کسی نہ کسی شکل میں بیان جاری کرتی ہے لیکن اس نے ابھی تک حمزہ کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ حمزہ بن لادن پاک افغان سرحدی علاقے میں رہ رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق افغان صوبے کے گورنر محمد اسماعیل نے بتایا کہ ”ہمارے خفیہ ذرائع کی اطلاعات یہ ہیں کہ حمزہ نامی شخص یہاں سکونت پذیر تھا تاہم ہمیں اس بات کا یقین نہیں تھا، بعض اسے پاکستانی کہتے اور دیگر اسے عرب سمجھتے رہے۔“
اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کرنے والی امریکی بحریہ کی ٹیم کو ان کی رہائش سے جو دستاویزات ملی تھیں ان میں سے ایک کے مطابق حمزہ 2009 سے 2010 کے درمیان ایران میں سکونت پذیر رہے۔ علی صوفان کا کہنا ہے کہ حمزہ فوجی کیمپ میں قید تھے۔
حمزہ بن لادن نے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی بات بھی کی تھی اور انھوں نے مغربی ممالک کے دارالحکومتوں پر حملوں کی اپیل بھی کی تھی۔ حمزہ نے ایک ویڈیو پیغام میں امریکیوں کو خبردار کیا تھا کہ ان کے حامی امریکہ کے اندر اور باہر حملے کریں گے۔
2015 کے اوائل میں القاعدہ کے جاری کردہ آڈیو کیسٹس ہی میں حمزہ بن لادن نے شدت پسند جماعتوں کو فلسطین آزاد کرانے کی ترغیب دی تھی۔