Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکہ اور طالبان امن معاہدے سے کتنے دور؟

وائٹ ہاؤس نے افغان طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی تیاری میں پیش رفت کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اعلیٰ مشیروں کے درمیان بات چیت ’بہت اچھی‘ رہی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کے درمیان ملاقات نیوجرسی کے گالف کورس میں ہوئی۔
ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں سیکرٹری دفاع مارک ایسپر، وزیرخارجہ مارک پومپیو، قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ موجود تھے۔
وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی پریس سیکرٹری ہوگن گیڈلے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ اس ملاقات میں افغان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات، دائمی امن اور طالبان کے ساتھ مفاہمتی معاہدے کے بارے میں بات چیت ہوئی۔‘
اسی حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’افغانستان کے حوالے سے ایک بہت اچھی ملاقات مکمل ہوئی ہے، اس 19 سالہ جنگ کے دوسرے فریق اور ہم، ایک معاہدہ کرنے کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ممکن ہوا۔‘
واضح رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدے پر اتفاق رائے کے لیے اب تک مذاکرات کے آٹھ  ادوار ہوچکے ہیں، آٹھویں دور میں دونوں فریقین نے کہا تھا کہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے اپنے رہنماؤں سے مشاورت کریں گے۔
افغان امور کے ماہر اور سینیئر صحافی طاہر خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں فریقین معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں، قطر بھی چاہ رہا ہے کہ اگلے دور میں یہ معاہدہ ہو جائے۔ 
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے امریکہ میں اعلیٰ سطح پر مشاورت ہو رہی ہے ایسے ہی افغان طالبان کے درمیان بھی ہر روز بات چیت ہو رہی ہیں۔ ’ گذشتہ ستمبر سے امن معاہدے کے لیے مذاکرات شروع ہوئے جو اب تک جاری ہیں اور اس کا نہ رکنا اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں فریقین بات چیت کے لیے سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل ہوجائیں۔‘
طاہر خان کے مطابق ’جمعے کو کوئٹہ کی مسجد میں ہونے والے دھماکے میں افغان طالبان کے رہنما ملا ہیبت اللہ کے بھائی کی ہلاکت اور بیٹے کے زخمی ہونے پر طالبان ضرور سوچیں گے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں کیوں ہوا، تاہم میں نہیں سمجھتا کہ اس واقعے سے مذاکرات کے عمل کو کوئی نقصان پہنچے گا۔‘

امن معاہدہ ہونے پر افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہو جائے گا، فائل فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان معاہدہ اب بہت قریب ہے کیونکہ امریکی افواج کے انخلا، قیدیوں کی رہائی اور امریکی افواج کے اڈے خالی کرنے پر اتفاق ہوا ہے لیکن فوجیوں کے انخلا کے ٹائم فریم پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے۔
ان کے مطابق اگر معاہدہ ہوتا ہے تو طالبان چین اور روس کی ضمانت مانگتے ہیں جس کے لیے دونوں ممالک تیار بھی ہیں۔
اس معاہدے کے حوالے سے توقعات بڑھ رہی ہیں، معاہدہ ہونے کی صورت میں افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہو جائے گا۔
اے ایف پی کے مطابق امریکہ چاہ رہا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل جائے، افغانستان میں واشنگٹن نے ایک ٹریلین ڈالرز خرچ کیے ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے ساتھ ہی کہا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں۔
اس کے بدلے میں طالبان کئی سکیورٹی معاہدوں کی ضمانت دیں گے، یہ ضمانت بھی دیں گے کہ افغانستان پھر سے جہادیوں کو گڑھ نہ بن جائے۔
امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدہ افغانستان میں جنگ کا اختتام تو کر دے گا تاہم اس معاہدے کے بعد طالبان کو امریکی حمایت یافتہ کابل کی حکومت سے بھی معاہدہ کرنا ہو گا۔

مذاکرات کے آٹھویں دور میں امن معاہدہ ہونے کی امید کی جا رہی تھی تاہم ایسا نہیں ہوا، فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’ ہم افغانستان کی حکومت کے ساتھ مسلسل قریبی رابطے میں ہیں، ہم ایک جامع امن معاہدے کے لیے پرعزم ہیں۔‘ 
امریکہ اور افغان طالبان مذاکرات میں پیش رفت کے دعوے کر رہے ہیں لیکن ملک میں امن و امان کی صورت حال میں افغانوں نے بہت کم تبدیلی دیکھی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس افغانوں کے لیے بدترین تھا۔ افغانستان میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں کم سے کم 3 ہزار 804 افراد ہلاک ہوئے جن میں 927 بچے بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے ادارے ’یو این اوچا‘ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں برس کے پہلے سات ماہ کے دوران 2 لاکھ 17 ہزار افراد نے خراب حالات کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑ دیا۔

شیئر: