کرسٹیانو رونالڈو، نیمار اور ریاض مہریز جیسے ورلڈ سپرسٹارز کی موجودگی نے ایشیا کی پریمیئر کلب چیمپئن شپ کو عالمی سطح پر مزید بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو کے النصر میں شامل ہونے کے بعد اب جہاں بھی اس کلب کا میچ ہوتا ہے وہاں بڑی تعداد میں لوگ دیکھنے آتے ہیں۔
گذشتہ سال ایران میں النصر اور ایران کی پروفیشنل فٹبال کلب پرسپولیس کے میچ کے دوران ہزاروں شائقین موجود تھے جبکہ حال ہی میں قطر کے الیبت سٹیڈیم میں الغرافہ کلب سے میچ میں 37000 سے زائد شائقین موجود تھے۔
رونالڈو کی النصر میں شمولیت سے قبل قطر کی لوکل کلب الغرافہ کے خلاف کسی میچ میں اوسطاًچار ہزار شائقین ہی دیکھے جاتے تھے لیکن اب یہ میچز باکس آفس پر ہٹ ہیں۔
اسی طرح ریاض کی الہلال کلب کے ساتھ نیمار کے معاہدے نے بھی شائقین کو بڑی تعداد کو متوجہ کیا ہے۔
گذشتہ سیزن میں انڈین چیمپئن ممبئی سٹی کو الہلال سے میچ کھیلنے کے لیے زیادہ تماشائیوں کی آمد کی توقع کے باعث سٹیڈیم بدلنا پڑا، چند ہفتے قبل نمار کو لگنے والی چوٹ کے باوجود شائقین کی تعداد 30 ہزار رہی۔
اے ایف سی چیمپئنز لیگ ہمیشہ سے سعودی کلبوں اور شائقین کے درمیان خاص مقام رکھتی ہے اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ 2002 میں اس کی نئی ترتیب کے بعد سے پچھلے دو عشروں میں سعودی کلبوں نے کئی بار فائنل تک رسائی حاصل کی ہے۔
الاتحاد کلب نے 2004 اور 2005 میں لگاتار دو ٹائٹل جیتے جبکہ 2009 میں رنر اپ رہی۔
اس کے بعد سے ریاض کے بڑے کلبوں نے براعظمی مقابلوں پر غلبہ پانے کو اپنا مقصد بنا لیا، چار مزید فائنل میں شرکت کی جن میں دو جیتے اور دو ہارے اور پچھلے پانچ میں سے تین فائنلز میں پہنچے۔
یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ سعودی کلبوں کا اے ایف سی چیمپئنز لیگ میں ایک طویل اور شاندار ماضی ہے جو اب اے ایف سی چیمپئنز لیگ ایلیٹ کے نام سے جانی جاتی ہے اور یہ کامیابی اس وقت سے جاری ہے جب سے لیگ میں بے مثال سرمایہ کاری کی گئی ہے اور دنیا کے نامور فٹبالرز سے معاہدے ہوئے ہیں۔
نئے فارمیٹ کے تحت جس میں 24 ٹیمیں شامل ہیں، تینوں بڑے سعودی کلبز الہلال، النصر اور الاہلی پہلے ہی اگلے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں۔ ان کی کارکردگی بہترین رہی ہے جس میں 15 میں سے 13 میچز جیتے گئے اور کوئی شکست نہیں ہوئی۔
اگرچہ بعض ماہرین کو خدشہ ہے کہ سعودی کلبز کی مالی برتری سے دوسرے ایشیائی کلبز کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا لیکن ٹورنامنٹ کا فارمیٹ اور ناک آؤٹ مرحلے میں ممکنہ سرپرائزز بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
آسٹریلیا میں مقیم فٹبال مبصر اسکاٹ میک انٹائر کے مطابق موجودہ حالات میں مشرقی ایشیا کے کلبز کے لیے سعودی کلبز کا مقابلہ کرنا مشکل ہے جب تک کہ فارمیٹ میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔
یہ بات واضح ہے کہ سعودی پرو لیگ میں سرمایہ کاری نے نہ صرف ایشیائی فٹبال کو مزید دلکش بنایا ہے بلکہ آئندہ برسوں میں سعودی کلبز کی بالادستی کا راستہ بھی ہموار کر دیا ہے۔