Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سب مر جائیں گے، اب کے تری ویدی بھی نہ بچے گا‘

انتظار کا وقت ختم ہوا، اور ماہ اگست میں جشنِ آزادی کی خوشیوں کے ساتھ فلموں کے شائقین کو ایک خاص قسم کی آزادی حاصل ہوئی۔ اس انتظار سے آزادی جو انڈین ڈرامے ’سیکرڈ گیمز‘ سے منسوب تھی۔
یہ بھی عجب انتظار تھا کہ لوگ دیکھنا چاہتے تھے کہ آیا ہماری دنیا ختم ہوجائے گی؟ کیا ایشیا کے مسائل ایک ایٹمی دھماکے میں سمٹ کر ختم ہوجائیں گے؟
سنا ہے شائقین نے ایک ہی دن میں دوسرے سیزنز کی تمام اقساط ساتھ دیکھ ڈالیں اور اس کے بعد لگے تنقید کے تیر چلانے یا پھر گنیش گائےتندے کے ڈئیالاگز کو اسکے مخصوص انداز میں ادا کرنے۔
آپ لاکھ کہیں کہ دوسرے سیزن میں وہ بات نہیں مگر آپ انکار نہیں کر سکتے کہ کہانی میں دم تھا اور ہے اور رہے گا اور آپ اگلے سیزن کا انتظار اس پل سے کرنا شروع ہوگئے ہیں جب سے آپ تمام اقساط دیکھ کر اٹھے ہیں۔

نواز الدین صدیقی نے گائے تندے کے کردار کو خوب نبھایا۔ فوٹو: اے ایف پی

سیکرڈ گیمز کے سیزن اول کے اختتام کو دیکھ کر ہی اندازہ ہورہا تھا یہ ڈرامہ بھی بس ایک بڑی  سازش  کے گرد گھوم رہا ہے جب کہ بات شروع ہوئی تھی ایک گینگسٹر سے۔ گینگسٹر بھی انڈیا کا جس کی کچھ اسی طرح کی فلم ’گینگز آف واسع پور‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔
مگر اس دفعہ نواز الدین صدیقی ایک بڑے کینوس پر کھیل رہا تھا۔ پورے براعظم کی سیاست، مذہبی مسائل، دہشت گردی اس کے کردار سے جڑی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ گینگسٹر ایک خطرناک بین الاقوامی سازش اور دہشت گردی کے پلان کا حصہ بن جاتا ہے۔ ںہیں! اسے دہشت گردی نہیں کہنا چاہیئے۔ بلکہ یہ تو ’گرو جی‘ کا شرعی وظیفہ تھا جسے مکمل کرنے کے لئے وہ کچھ بھی بلیدان یا قربانی دے سکتے ہیں۔
آج جب کہ پاکستان اور بھارت میں رہنے والے اپنا ماضی بھول کر ’نیوکلیئر نیوکلیئر‘ کھیلنے کی تگ و دو میں ہیں اورجنگی اشتعال کا  کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ایسے میں سیکرڈ گیمز کی ہوشربا منظر نگاری شاید بہت سے لوگوں کو حیرت اور خوف میں مبتلا نہ کرے۔
البتہ، ایک بات ضرور ہے۔ کچھ دیکھنے والے شاید ڈرامے کی اساس کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ یا شاید وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ سیکرڈ گیمز نے دہشت گردی کو صرف ایک مذہب یا گروہ سے منسوب نہیں کیا۔

رادھیکا اپتے انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ کی ایجنٹ کے طور پر سامنے آئیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اب کی بار انڈیا میں ایسا ڈرامہ بنا ہے جس نے ہندومت کو لے کرغیر محسوس طریقے سے دکھایا ہے کہ اس کے ٹھیکیدار بھی جنگ و جدل و دہشت گردی کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ اور ایسی ترغیب جو دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹا دے اور پھر ’کل یوگ‘ ہو جائے یعنی انسان پھر پیدا ہوں، پھر سے اپنی زندگی شروع کریں۔ کیونکہ دنیا میں ہر طرف دکھ و غم ہے جس کو ختم کرنے کے لیے بہت سوں کی قربانی دینا ہوگی۔ ’جس ایٹم سے نکلے تھے، اسی میں سما جائیں اور پھر سے شروع کریں۔‘
جہاں کچھ مسلمانوں کو غزوہ ہند کی تیاری میں کام کرتے دکھایا گیا ہے وہیں یہ بھی دکھایا ہے کہ ان کو استعمال  درحقیقت ہندو کر رہے ہیں۔ دوسرے ممالک سے بیٹھ کر بھارتی خفیہ ایجنسی اور اس کی ایک خاص کرتا دھرتا کیسے ممبئی کے ایک بدمعاش سے اپنے کام نکلواتی ہیں، اور منشیات کیسے ملک میں لائی جاتی ہیں، اسلحے کے ٹرک کون وزیر ملک کے اندر لانے کی اجازت دیتا ہے، یہ سب دکھانے سے شائبہ ہوتا ہے کہ ڈرامہ انڈیا دشمن ملک میں بنا ہے۔
جہاں پہلے کبھی مسجدوں اور مدرسوں میں انتہا پسندی کی باتیں ہوتے دکھایا جاتا تھا اب وہیں ایک پرسکون آشرم میں کچھ ہندومت اور توہم کے متوالے زمین کی مکتی کے لیے ’اھم براہمسمی‘ کی صداؤں میں دنیا کو ختم کرنے کی جستجو میں دکھائے گئے ہیں۔ ایک مسلمان پولیس افسر جہاں اس سازش کو روکنا چاہتا ہے وہیں ایک ہندو منتری اور ایک اعلیٰ پولیس افسر اس پلان کے تکمیل کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دفعہ کھیل ہی دوسرا ہے۔

سیف علی خان ایک سکھ پولیس افسر کا رول کر رہے ہیں جو خطے کو ایٹمی حملے سے بچا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اس دفعہ کی جنگ میں تریویدی بھی نہ بچے گا۔ کیونکہ جو’کال گرانتھ‘ تریویدی کے پاس تھی وہ اب نہیں۔ اس کتاب کے بارے میں گائےتندے نے کہا تھا کہ گرو جی کتنی تو گرانتھ ہیں اس جہان میں، آپ نے ایک اور لکھ دی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایک سکھ پولیس افسر اپنی جان سولی پر چڑھا کر خطے کو نیوکلئیر دھماکے سے بچا پائے گا یا اس کی زندگی کا بھی بلیدان ہوجائے گا؟

شیئر:

متعلقہ خبریں