آنکھوں سے پٹی کھلی تو کچھ ملگجا سا منظر تھا، کوئی تہہ خانہ تھا شاید، چند ثانیے ہی گزرے تھے کہ پٹی پھر باندھی گئی اور کہیں اور لے جایا گیا، تب کُھلی تو سامنے سلاخیں تھیں، جی خوش ہوا کہ چلو روشنی اور ہوا تو آ رہی ہے۔ گارڈ نے چونکتے ہوئے پوچھا، آپ احمد فراز ہیں؟ جس پر وہ بولے ’یہاں بھیجنے والوں نے کوائف نہیں بھجوائے؟‘ وہ بڑبڑایا انہوں نے تو کہا کوئی غیر ملکی ایجنٹ بھیج رہے ہیں۔‘
یہ واقعہ احمد فراز نے ایک انٹرویو میں سنایا تھا، انہیں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ایک مشاعرے میں اس وقت کی حکومت کے خلاف نظم پڑھ رہے تھے۔
احمد فراز وہ شاعر تھے جنہیں ایک جانب عوام کی بے حد محبت ملی تو دوسری جانب بغاوت کی حد تک اپنے جمہوری خیالات کے باعث کچھ ’خواص‘ کے غضب کا بھی نشانہ بنے۔
قلم کا تعلق قول سے ہے اور قول کا کلام سے، ضمیر کی ڈور میں بندھے یہ اجزا چشم فلک نے بکھرتے بھی دیکھے ہیں لیکن ایسے نابغے ہیں تو کم، مگر ہیں، خود تو بکھرتے رہے تاہم اسے تسبیح کی مانند عزیز رکھا اور اس پر محبت، امن، خودداری اور بغاوت جیسے الفاظ جپتے رہے فراز انہی میں سے ہیں۔
وہ تھے ہی ایسے، انتہائی صاف گو، لگی لپٹی لپیٹ کر ایک طرف لگا رکھی تھی، جو کہتے بس کہہ دیتے، اپنے اس شعر کی مانند
خود کو ترے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا اس کو پلٹ کر نہیں دیکھا
وضع دار ایسے کہ سب کچھ دان کر دیتے
تو اتنی تنگ نگاہی سے اپنی چال نہ چل
ہم اہل دل ہیں کھلے دل سے ہارنے والے
رومانوی اتنے کہ باتوں باتوں میں پھولوں کی بات کرتے۔
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
امید پرستی بھی فراز کا خاصہ تھی۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ان کی جرات مندی بھی شاعری سے ڈھلکتی تھی۔
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتل شہر میں ٹھہرے رہے، جنبش نہیں کی
اورخودداری بھی۔
اس نے چاہت کے عوض ہم سے اطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اجازت چاہی
احمد فراز نے اپنے کلام سے قلم کے تقدس کی بات بھی کی۔
مرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
طاقت وروں کو للکارنا شاید ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ طبیعت کا بھی حصہ تھا۔
ایک آمر کی دستار کے واسطے
سب کی شہ رگ پہ ہے نوک تلوار کی
دور اندیش ایسے کہ دہائیوں قبل کہے الفاظ آج بھی درست لگتے ہیں
میں تو ہر طرح کے اسبابِ ہلاکت دیکھوں
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں
وہ جو قاتل تھے وہ عیسٰی نفسی بیچتے ہیں
وہ جو مجرم ہیں انہیں اہلِ عدالت دیکھوں
ان کی نظمیں ’پیش ور قاتلو‘ اور ’محاصرہ‘ مشہور تو بہت ہوئیں لیکن ان کے لیے مشکلات کا باعث بھی بہت بنیں۔ ان کے کچھ اشعار ضرب الامثال میں ڈھل چکے ہیں۔
احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ آغا محمد شاہ برق کوہاٹی کے ہاں 14 جنوری 1931 کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے، پہلا شعر چھ سال کی عمر میں اس وقت کہا جب والد سب گھر والوں کے لیے کپڑے لائے اور کپڑے پسند نہ آنے پر دھیمے سے انداز میں بولے
لائے ہیں سب کے لیے کپڑے سیل سے
لائے ہیں میرے لیے کپڑے جیل سے
اس پر ایک قہقہے سے زیادہ توجہ نہیں دی گئی کسی کو معلوم ہی نہ ہو سکا کہ مستقبل کا کتنا بڑا شاعر ان کے بیچ ہے۔
اس کے بعد سکول، کالج اور یونیورسٹی کا سلسلہ چلتا رہا۔
اس دوران انہوں نے شاعری شروع کر دی تھی اور ان کی کتاب ’تنہا تنہا‘ زمانہ طالب علمی میں ہی چھپی، اس وقت انہوں نے ریڈیو کے لیے فیچر اور سکرپٹ لکھنا شروع کیے، ساتھ ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔
بعدازاں کالج اور یونیورسٹی سے بطور لیکچرر منسلک ہوئے اس دوران ان کی دوسری کتاب ’درد آشوب‘ شائع ہوئی۔
اس سے بہت قبل ہی وہ ترقی پسند ادب اور بائیں بازو کی فکر سے متاثر ہو چکے تھے۔ ان کی زندگی میں چار آمرانہ ادوار آئے جن کی انہوں نے اپنی شاعری میں ڈٹ کر مخالفت کی اور مشکلات سہیں۔
وہ پاکستان نیشنل سنٹر پشاور کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان، نیشنل بک فائونڈیشن، لوک ورثہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ انہیں ایک ٹی وی انٹرویو میں حکومت پر تنقید کرنے پر ملازمت سے برطرف بھی کیا گیا۔
بھٹو، ضیا دور
ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں مولانا کوثر نیازی وزیر اطلاعات تھے اور احمد فراز انہی کے ماتحت ایک ادارے میں کام کرتے تھے، چونکہ کوثر نیازی کو بھی شعرو شاعری کا شوق تھا انہوں نے ایک کتاب کا مسودہ تیار کیا اور احمد فراز کو اس کا پیش لفظ لکھنے کا کہا جس پر فراز کا جواب تھا ’کیسے لکھ دوں، جب میں آپ کو شاعر ہی نہیں مانتا‘۔
باس کا پارہ چڑھا تو ضرور تاہم اظہار نہیں کیا۔
اگلے روز ایک معروف اخبار میں احمد فراز کی ایک نظم پر اداریہ لکھا گیا اور ایک شعر کو مذہب پر حملہ قرار دیا گیا جس پر وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے گھبرا گئے کہ کہیں فسادات نہ پھوٹ پڑیں، وزیراعظم کو بھی تشویش تھی تاہم جب تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ کوثرنیازی نے خود فون کروا کے ایڈیٹر کو وہ شعر لکھوایا تھا اور ساتھ وزیراعظم کا پیغام دیا تھا کہ وہ احمد فراز سے سخت نالاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ان کے خلاف اداریہ لکھیں تاکہ انہیں نوکری سے نکال دیا جائے حالانکہ اس سے قبل ’فنون‘ نامی رسالے میں جب یہ نظم شائع ہوئی تھی اس میں وہ شعر تھا ہی نہیں۔
علم ہونے پر بھٹو نے احمد فراز کو فون کیا اور کہا کہ بچ گئے، اب محتاط رہنا، لیکن وہ کہاں محتاط رہنا جانتے تھے، پھر جنرل ضیاالحق کے ذریعے بھٹو کو احمد فراز کی شکایت ملی اس وقت وہ تحریک نظام مصطفیٰ کی وجہ سے دبائو میں تھے اس لیے احمد فراز گرفتار کر لیے گئے، جن کی ضمانت ملکہ ترنم نور جہاں کی وساطت سے ہوئی۔ (یہ واقعہ فتح محمد ملک اور حامد میر نے اپنے کالموں میں لکھا تھا)
بھٹو کے بعد ضیا دور شروع ہوا تو احمد فراز کے لیے بے تحاشا مشکلات بھی لایا، ان کو ملازمت سے نکال دیا گیا، اس دوران بھی مزاحمتی شاعری کرتے رہے جس پر اس حد تک تنگ کیا گیا کہ وہ ملک ہی چھوڑ کر چلے گئے۔
جملہ بازی، بذلہ سنجی
احمد فراز بلا کے جملہ باز تھے، چھوٹی سی بات سے محفل بدل دیا کرتے تھے۔ ایک بار وہ کہیں کھڑے سگریٹ پی رہے تھے کہ کسی خاتون نے کہا کہ یہ صحت کے لیے مضر ہے، ساٹھ فیصد سموکرز میں کینسر سگریٹ کی وجہ سے ہوتا ہے، جس پر وہ بولے، آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن میں چالیس فیصد والوں میں سے ہوں۔
ایک بار کسی نے کہا سگریٹ ’سلو پوائزن‘ ہے جس پر گویا ہوئے، ’ٹھیک ہے، مجھے بھی مرنے کی کوئی جلدی نہیں۔‘
ایک بار مشاعرے میں پنجابی مزاحیہ شاعر عبیر ابوذری شعر سنا رہے تھے
پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی
پِچھّوں کردا فراں ٹکور تے فیدہ کی
کراچی سے آئے ایک شاعر نے دوسرے مصرعے کا ترجمہ پوچھا تو فراز بولے اس کا ترجمہ نہیں تجربہ ہو سکتا ہے۔
ان کے علاوہ بھی بے شمار ایسے واقعات ہیں۔
ہلال امتیاز کی وصولی، واپسی اور وفات
پرویز مشرف کے دور حکومت 2004 میں احمد فراز کو خدمات کے اعتراف کے طور پر ہلال امتیاز سے نوازا گیا جو انہوں نے وصول تو کر لیا تاہم تھے وہ حکومتی پالیسیوں کے ناقد، چونکہ وہ بھی آمریت کا دور تھا اور حکومتی پالیسیاں خصوصاً بلوچستان میں بننے والی صوررت حال انہیں بے چین رکھتی تھی، اس لیے یہ ایوارڈ انہیں کھٹکتا رہا اور پھر 2006 میں انہوں نے بطور احتجاج واپس کر دیا۔
2008 کے آغاز میں ہی احمد فراز کو صحت کے حوالے سے مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے، پھر بھی متحرک رہے۔ ایک مشاعرے کے سلسلے میں امریکہ میں موجود تھے کہ طبعیت خراب ہوئی اور وطن لوٹنے کے چند روز بعد 25 اگست کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔
انہی کا یہ مقطع ان کی ہمہ جہت شخصیت کا کافی حد تک احاطہ کرتا ہے