Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احمد فراز، 14شعری مجموعوں کے حامل، شاعرِ رومان

جاویداخترجاوید۔جکر،جہلم
سلسلے توڑگیاوہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تومراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوئہ ظلمتِ شب سے تو کہیںبہترتھا
اپنے حصے کی کوئی شمع تو جلاتے جاتے
پاکستان کے افسانوی شہرت یافتہ شاعرِ رومان، احمدفراز1931ء میںبرق کوہاٹی کے ہاںپیداہوئے اور اردوشاعری کواوجِ کمال تک پہنچاکر2008ء میں77برس کی عمر میں ملکِ عدم سدھارگئے ۔ انہوں نے’’ تنہا تنہا‘‘ سے لے کر ’’غزل بہانہ کروں‘‘تک 14شعری مجموعے تخلیق کئے ۔ وہ رومانی ہی نہیں، مزاحمتی شاعر بھی تھے۔ انہوں نے نوجوانوںکے دل ِودماغ کے قریب ہو کر شعر کہے، صنفِ نازک کے دل جیتے اور فکری پیکرتراشی کی ۔
احمد فراز اکادمی ادبیات کے بانی سربراہ تھے۔ سیداحمدشاہ جنہیںادبی دنیااحمدفرازکے نام سے جانتی ہے ، انہوں نے شعروادب کی دنیا میںحکمرانی کی۔ انہیں19اعلیٰ اور 6عالمی اعزازات سے نوازاگیا۔ان کی غزلوںاور نظموںکو فلموںمیںپیش کیا گیا جس کی وجہ سے ان کے کلام کو شہرتِ دوام ملی۔ فراز کو مِلی ادبی مزاحمتی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلمی شاعر کے طور پر پذیرائی ملی کیونکہ انہوںنے فلموں میںبھی ادب متعارف کروایا۔ انہیں آمریت کے خلاف لب کشائی کرنے پر جلاوطن بھی ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنے کئی اعزازات محض اس لئے واپس کر دیئے کیونکہ وہ آمریت کے دور میں دیئے گئے تھے۔
احمد فراز کا چہرہ کتابی ،نیم خوابی،ستواںناک،کشادہ پیشانی، یہ سب ذہانت کی نشانی تھے۔ وہ شعر کہتے، دریائے سخن میں بہتے اور تنہا تنہا اس کا بوجھ سہتے اور بارِسخن اٹھاکر خود کلامی کر تے اور شعر فہمی کو عام کرتے تھے۔انہوںنے ترقی پسندی اور روشن خیالی کی چادر تانی اور جلاوطنی میںملکوںملکوںکی خاک چھانی اور فکروفن کو جلابخشی۔ شہرتیں ان کے قدموں چومتی اور شاعری کو دوام بخشتی رہیں۔ انہوںنے ادب کا بلند، اقبال کیا ،دنیائے سخن کو مالامال کیا غزل کے حسن کو نکھارااور نظم کے فکری پہلو کر سنوارا وہ ناقدوںکے ناقداور ناقدین کی ضد تھے۔

شیئر: