کراچی کے میئر وسیم اختر نے محض چند گھنٹوں کے اندر ہی سابق میئر مصطفیٰ کمال کی بطور پراجیکٹ مینیجر گاربیج تعیناتی کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے انہیں عہدے سے ہٹا دیا۔
ایک انوکھے نوٹیفیکیشن کے ذریعے وسیم اختر نے پیر کے روز مصطفیٰ کمال کو ہنگامی بنیادوں پہ 90 روز کے اندر کراچی کا کچرا صاف کرنے کا ٹاسک دیا تھا لیکن بعد ازاں مصطفیٰ کمال کی مبینہ بدتمیزی اور نامناسب رویہ کو بنیاد بنا کر یہ عہدہ واپس لے لیا۔
کراچی میں کچرے کے نام پر کافی دنوں سے سیاست جاری ہے اور وسیم اختر اور مصطفیٰ کمال کافی دنوں سے ایک دوسرے پہ ذاتی نوعیت کی الزام تراشی کر رہے ہیں۔ اسی دوران پاک سر زمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال نے دعویٰ کیا کہ اگر انہیں اختیار دیا جائے تو وہ کراچی کا کچرا صاف کردیں گے۔ اسی بیان کے رد عمل میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما وسیم اختر نے ایک انوکھے نوٹیفیکیشن کے ذریعے انہیں ایسا کرنے کا اختیار دیا تھا لیکن 24 گھنٹے کے اندر ہی فیصلہ واپس لے لیا۔
وسیم اختر نے موقف اپنایا کہ مصطفیٰ کمال کو عہدہ ملنے کے بعد دفتر آنا چاہیے تھا اور مہیا وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کچرا اٹھانے کا پلان بتانا چاہیے تھا تا کہ اس پہ عمل درآمد ہو سکے، لیکن سابق میئر نے غیر اخلاقی گفتگو کی اور جلوس نکالا۔ ’مصطفیٰ کمال نیب کے عہدیدار نہیں جو دستاویزات منگوا رہے ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا کے مطابق ایسے نوٹیفیکیشن کا اجراء ہی غیر قانونی ہے اور مئیر کراچی کے پاس یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ کسی شخص کو ذاتی ایما پر یہ اختیارات دے دیں۔
جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم نے دونوں رہنماؤں کے رویے کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ دونوں نمایندہ جماعتیں کراچی کے مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہے ہیں۔
کراچی کے کچرے پہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا آغاز تب ہوا جب رواں ماہ کے اوائل میں وفاقی حکومت نے شہر میں صفائی مہم کے آغاز کا اعلان کیا۔ وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کے مطابق صوبائی حکومت اپنی ذمہ داری نہیں نبھا رہی تھی اس لیے وفاقی حکومت نے پاک فوج کے ذیلی ادارے کے تعاون سے شہر کو صاف کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اس مہم میں ایم کیو ایم حکمران جماعت کے ساتھ نظر آئی اور شہری انتظامیہ نے بھی تمام ملبہ صوبائی حکومت پہ ڈالا۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36481/2019/000_ks1lz.jpg)
اس مہم کے آغاز کے چند دن بعد ہی وفاقی حکومت نے کہا کہ شہر کو صاف کرنے کے لیے 1.75 بلین روپے درکار ہوں گے اور ساتھ ہی عوام سے چندے کی اپیل کردی، جس سے ایک نئی بحث چھڑ گئی کہ جو شہر ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے اس کی صفائی کے لیے بھی شہریوں سے امداد کی جائے گی۔ علاؤہ ازیں، ابتداء میں کہا گیا تھا کہ دو ہفتے کی صفائی مہم میں شہر صاف ہو جائے گا، مگر بعد میں علی زیدی نے اعتراف کیا کہ کراچی کو صاف کرنے کے لیے کم از کم تین مہینے درکار ہوں گے۔
مہم کے دوران وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے بھی مدد مانگ لی اور تسلیم کیا کہ صوبائی حکومت کی شراکت داری کے بغیر شہر کی صفائی ممکن نہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر اور کلین کراچی مہم کے پیش رو علی زیدی نے صوبائی وزیر بلدیات ناصر شاہ کو خط بھی لکھا اور ان شعبوں کی نشاندہی کی جن میں مدد درکار تھی۔
اس تمام پیش رفت میں ایم کیو ایم کی شہری حکومت کے عہدیداران کا موقف یہی رہا کہ ان کے پاس تو اختیارات ہی نہیں اور اتنی صلاحیت و استعداد ہی نہیں کہ وہ اپنے زیرِ انتظام علاقوں کو صاف رکھ سکیں۔ اس دوران کراچی کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ترقیاتی پیکیج کی خبریں بھی گردش میں رہیں تاہم ایسا کوئی نیا اعلان دیکھنے میں نہیں آیا۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36511/2019/kmc_pro.jpeg)