امریکی صدر ڈونلد ٹرمپ کی جانب سے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی معطلی کے اعلان پر امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امید کرتے ہیں کہ اب طالبان اپنا رویہ تبدیل کر لیں گے اور طے شدہ باتوں پر عمل کریں گے۔
امریکی ٹی وی چینل اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’طالبان کے اپنا رویہ تبدیل کرنے کے بعد بات چیت سے یہ معاملہ حل ہو جائے گا، ہمیں ایک اہم اور پائیدار معاہدے کی ضرورت ہے۔‘
پومپیو کے مطابق اگر طالبان امن مذاکرات کے درمیان ہونے والے سمجھوتوں پر عمل نہیں کرتے تو صدر ٹرمپ دباؤ کم نہیں کریں گے اور امریکہ افغان سکیورٹی فورسز کی حمایت و تعاون جاری رکھے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء صرف باتوں نہیں بلکہ حقیقی شرائط اور زمینی حقائق کی بنیاد پر ہی ہو گا۔
دوسری طرف پاکستان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ’پاکستان نے ہمیشہ پُرتشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ صبر و تحمل کے ساتھ امن عمل کو آگے بڑھایا جائے۔‘
دفتر خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان افغان عمل میں سہولت کار کا مخلصانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔
بیان کے مطابق پاکستان حالیہ صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور اپنے اصولی پالیسی مؤقف کا دوبارہ اعادہ کرتا ہے کہ افغان تنازع کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ پاکستان زور دیتا ہے کہ تمام فریقین دوبارہ مذاکرات کی میز پر افغان مسئلے کا سیاسی حل جلد تلاش کریں۔
دفتر خارجہ کے مطابق افغانستان میں امن کے لیے پاکستان مذاکرات کی جلد از جلد بحالی کا خواہاں ہے۔
مذاکرات کی معطلی کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہوگا، طالبان
افغان طالبان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مذاکرات معطل کرنے کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہوگا۔
اے ایف پی کے مطابق طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہنا تھا کہ طالبان کے دروازے مذاکرات کے لیے کھلے رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اب بھی یقین ہے کہ امریکی دوبارہ اس پوزیشن پر واپس آئیں گے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کی 18 سالہ جنگ امریکہ پر یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے کہ ہم قبضہ مکمل طور پر ختم ہوئے بغیر مطمئن نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی جانب سے یہ اعلان ٹوئٹر پر کیا گیا تھا۔
اشرف غنی کا ردعمل
اس سے قبل افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری ایک بیان میں امریکی صدر کے اقدام کو سراہا گیا تھا۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بیان میں کہا گیا تھا، ’امن کے حوالے سے افغان حکومت اپنے اتحادیوں کی مخلص کوششوں کو سراہتا ہے اور امریکہ اور دوسرے دوست ممالک کے ساتھ امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان کے صدارتی دفتر نے اتوار کو کہا کہ ’اصل معنوں میں امن صرف تب ممکن ہے جب طالبان دہشت گردی روک کر حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں۔‘
اشرف غنی کی انتظامیہ کے افسران نے کہا ہے کہ ’اصل امن تب آئے گا جب طالبان جنگ بندی کے لیے راضی ہوں گے۔‘
ٹرمپ کا بیان
ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ امن مذاکرات کابل میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کی ہلاکت کے باعث معطل کیے گئے ہیں اور طالبان نے جھوٹے مفاد کے لیے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
....an attack in Kabul that killed one of our great great soldiers, and 11 other people. I immediately cancelled the meeting and called off peace negotiations. What kind of people would kill so many in order to seemingly strengthen their bargaining position? They didn’t, they....
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) September 7, 2019
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کمیپ ڈیوڈ میں ان کی طالبان رہنماؤں کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات بھی فوری طور پر منسوخ کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ کے مطابق ’کیمپ ڈیوڈ میں افغان صدر اور طالبان رہنماؤں سے الگ الگ ملاقاتیں اتوار کو ہونا تھیں۔ اس سلسلے میں وہ آج رات امریکہ پہنچ رہے تھے۔‘
امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’یہ کیسے لوگ ہیں جو مذاکرات میں اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی پوزیشن مضبوط نہیں بلکہ مزید خراب کی ہے۔‘
....only made it worse! If they cannot agree to a ceasefire during these very important peace talks, and would even kill 12 innocent people, then they probably don’t have the power to negotiate a meaningful agreement anyway. How many more decades are they willing to fight?
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) September 7, 2019