پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرم رکن گلالئی اسماعیل امریکہ پہنچے کے بعد سیاسی پناہ کی منتظر ہیں۔
امریکی سینیٹر چارلس شمر نے ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا ہے کہ وہ گلالئی اسماعیل کی سیاسی پناہ کی درخواست کی منظوری کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے کیونکہ ان کی پاکستان واپسی سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
قبل ازیں گلالئی نے اپنی امریکہ آمد کی تصدیق کرتے ہوئے اخبار کو بتایا کہ وہ کسی پاکستانی ایئرپورٹ سے امریکہ نہیں پہنچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنے سفر کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے سے پاکستان میں موجود ان کے مددگاروں کی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق 32 سالہ گلالئی اس وقت بروک لین میں اپنی بہن کے پاس رہائش پزیر ہیں۔
گلالئی اسماعیل کون ہیں؟
قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے فارغ التحصیل گلالئی اسماعیل پہلی مرتبہ اس وقت معروف ہوئیں جب انہوں نے 16 سال کی عمر میں خواتین بالخصوص نوجوان لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے حقوق کی آگاہی کے متعلق ’آوئیر گرلز‘ نامی تنظیم بنائی جس کے تحت وہ نوجوان لڑکیوں کو اپنے تحفظ اور حقوق کے متعلق آگاہی اور تربیت فراہم کرتی تھیں۔
بعد ازاں انہوں نے طالبان کے خلاف آواز اٹھائی اور 2014 میں پی ٹی ایم کے قیام کے بعد اس کی سرگرم رکن بن گئیں۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں سکیورٹی اداروں پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کیے جس کے بعد ان کے خلاف متعدد مقدمات قائم کیے گئے۔
ان کو 2018 میں لندن سے وطن واپسی پر گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ رواں سال فروری میں بھی انہیں مختصر وقت کے لیے اس وقت زیر حراست لیا گیا جب وہ پی ٹی ایم کے ہی ایک رکن کی زیرحراست ہلاکت کے بعد مظاہرے میں حصہ لینے کے لیے بلوچستان پہنچی تھیں۔
رواں سال مئی میں اسلام آباد میں ایک 10 سالہ پشتون لڑکی کے اغوا، زیادتی اور قتل کے بعد ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے گلالئی اسماعیل نے پاکستانی سکیورٹی اداروں کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ان کے خلاف اشتعال انگیزی کا مقدمہ درج کیا اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے۔
گلالئی نے نیویارک ٹائمز کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان چھوڑتے وقت انہوں نے اپنے ملک کی مٹی کو چھوا اوراپنے آپ سے کہا کہ یہ میرا ملک ہے۔
گلالئی امریکہ کسیے پہنچیں؟
گلالئی اسماعیل نے اپنے امریکہ پہنچنے کی تصدیق کرتے ہوئے ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ وہ کسی پاکستانی ایئرپورٹ سے امریکہ نہیں پہنچیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اپنے سفر کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے سے پاکستان میں موجود ان کے مددگاروں کی زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔
گلالئی سے آخری ملاقات کے بارے میں ان کے والد نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ وہ انہیں 30 مئی کو ان کے ایک دوست کے گھر پر ملی تھیں، جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ وہ اب دوبارہ شاید کبھی ان سے نہ مل سکیں اور وہ اپنی خواتین سماجی کارکن دوستوں کے ساتھ پہلے پنجاب اور پھر وہاں سے کراچی جائیں گی۔
مزید پڑھیں
-
علی وزیر، محسن داوڑ کی ضمانت منظور، رہائی کا حکمNode ID: 434191
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا گلالئی اقوام متحدہ میں کوئی درخواست دائر کریں گی، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ مختلف لوگوں سے ملیں گی اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں کل سے شروع کر دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کو گلالئی کے پاکستان سے روانگی کے بارے میں کوئی براہ راست معلومات نہیں ہیں تاہم ان کے علم میں آیا ہے کہ وہ سری لنکا کے راستے امریکہ پہنچی ہیں۔
اسماعیل خان نے بتایا کہ گلالئی کی چار سال پہلے شادی ہوئی تھی لیکن دباؤ کے نتیجے میں ان کا شوہر غائب ہو گیا اور اس نے گلالئی سمیت کسی سے رابطہ نہیں کیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے اور ان کی اہلیہ کے خلاف بھی دہشت گردوں کی مدد اور غداری کے مقدمات قائم ہیں اور اب وہ خوفزدہ نہیں ہیں۔
’ہمیں جیل میں ڈالتے ہیں تو ڈالیں، مارتے ہیں تو ماریں۔‘
امریکی سینیٹر چارلس شمر نے ’نیویارک ٹائمز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گلالئی اسماعیل کی سیاسی پناہ کی درخواست کی منظوری کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے کیونکہ ان کی پاکستان واپسی سے ان کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
نیو یارک ٹائمز کے مطابق 32 سالہ گلالئی اس وقت بروک لین میں اپنی بہن کے ہاں رہائش پذیر ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں