افغان صدر اشرف غنی کی بیگم رولا غنی افغان صدارتی انتخاب کے دوران ووٹ ڈال رہی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
افغانستان میں صدارتی انتخاب کا عمل سخت سیکیورٹی میں مکمل ہوگیا ہے جبکہ کابل، جلال آباد اور قندھار سمیت دیگر علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر بم دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں کم ازکم دو افراد ہلاک اور 27 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق جلال آباد میں پولنگ اسٹیشن کے قریب بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور دوافراد زخمی ہوگئے ہیں۔
علاوہ ازیں قندھار میں ہسپتال کے ڈائریکٹرکا کہنا ہے کہ ’قندھار کے پولنگ اسٹیشن میں بم دھماکے سے 16 افراد زخمی ہوگئے‘۔
ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ملک بھر میں پولنگ سینٹر پر طالبان کے حملوں کے نتیجے میں دو شہری جاں بحق اور 27 زخمی ہو گئے ہیں۔
افغانستان میں صدارتی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے شروع ہوا جو سہ پہر 3 بجے تک تھا تاہم افغان الیکشن کمیشن نے ووٹنگ کا دورانیہ دو گھنٹے بڑھادیا جس کے بعد پولنگ 5 بجے تک جاری رہی۔
ووٹنگ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے ۔ افغان الیکشن کمیشن کے مطابق ابتدائی نتائج 17 اکتوبر کو جاری کیے جائیں گے۔
افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہونے والے چوتھے صدارتی انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی ہے۔
سنیچر کو ہونے والے انتخابات میں موجودہ افغان صدر اشرف غنی سمیت 18 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تاہم اصل مقابلہ اشرف غنی، موجودہ چیف ایگزیکٹیوعبداللہ عبداللہ، سابق مجاہد کمانڈر گلبدین حکمت یار اور احمد ولی مسعود کے مابین متوقع ہے۔
طالبان کی جانب سے افغان صدارتی الیکشن کو نشانہ بنانے کے بیان کے بعد سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے۔
آزاد الیکشن کمیشن کے ترجمان زابی سادات نے کہا ہے کہ ملک بھر میں ووٹنگ شروع ہوئی ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ لوگ پہلے سے پولنگ سٹیشن کے باہر ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں انتظار کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکام نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دارالحکومت کابل کی گلیوں کو فوجیوں سے بھر دیا۔ ٹرکوں کے کابل میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تاکہ کوئی خودکش بمبار الیکشن کے عمل کو نشانہ نہ بنا سکے۔
کابل کے ایک پولنگ سٹیشن پر موجود ووٹر کا کہنا تھا کہ ووٹ ڈالنا انتہائی ضروری ہے۔ 55 سالہ محی الدین نے اے ایف پی کو بتایا ’مجھے پتہ ہے کہ سکیورٹی تھریٹس ہیں لیکن بم دھماکے اور حملے ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔‘
یاد رہے 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ افغانستان کے چوتھے صدارتی انتخابات ہیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے پہلے انتخابات 2005، دوسرے 2009 اور تیسرے انتخابات 2014 میں منعقد ہوئے تھے۔
سنیچر کو ہونے والے انتخابات رواں سال 20 اپریل کو منعقد ہونا تھے تاہم امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث یہ انتخابات ملتوی کیے گئے تھے۔
افغان صدارتی انتخاب میں موجودہ افغان صدر محمد اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ، کمانڈرگلبدین حکمتیار، سابق افغان نیشنل سیکیورٹی سربراہ رحمت اللہ نبیل، احمد ولی مسعود، نورالحق علومی، عبدالطیف پدرم، رنوراللہ جلیلی اور دیگر حصہ لے رہے ہیں۔
افغان آئین کے تحت صدارتی امیدوار کو جیت کے لئے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لینا ضروری ہے اور اگر کوئی امیدوار آج ہونے والے انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکا تو پہلے مرحلے کے ٹاپ دو امیدواروں کے مابین دوبارہ مقابلہ ہوگا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگرچہ 18 میں سے تین امیدوار انتخابات سے دستبردار ہو چکے ہیں تاہم ان کا نام آج ہونے والے انتخابات کے بیلٹ پیپرز پر موجود ہے۔ حکام کے مطابق مذکورہ امیدواروں نے مقررہ وقت گزرنے کے بعد دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔
خیال رہے صدارتی انتخاب کی مہم بہت زیادہ پرتشدد رہی اور شدت پسندوں نے انتخابی جلسوں اور میٹنگز کو نشانہ بنایا۔
اشرف غنی
موجودہ صدر اشرف غنی بھی ان انتخات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق اشرف غنی کو وژنری، غصے والا اور اکیڈیمک کہا جاتا ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو ورلڈ بینک کے سابق اکانومسٹ اور سابق وزیر خزانہ کا دیرینہ خواب رہا ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ ان چند شخصیات میں سے ہیں یا شاید واحد شخصیت ہیں جو کہ افغانستان کی تعمیر نو کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔
کسی قابل اعتبار رائے عامہ کے سروے یا پول نہ ہونے کے باوجود اشرف غنی کو سنیچر کو ہونے والے انتخابات میں پسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔ تاہم اشرف غنی اپنے دور اقتدار میں طالبان یا حکومتی مشینری میں موجود گہری کرپشن کے خلاف کوئی خاطر خواہ نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگرچہ انہوں نے طالبان کو کئی مرتبہ مذاکرات کی پیشکش کی تاہم ہر بار طالبان نے ان کی پیشکش انہیں امریکہ کا ’کٹھ پتلی‘ قرار دے کر مسترد کردی۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ
سابق ماہر امراض چشم اور سویت حملے کے خلاف لڑنے والے عبد اللہ عبداللہ ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شریک ہیں گوکہ انہیں پہلے دو مرتبہ پہلے شکست ہو چکی ہے۔
تاہم پچھلے دونوں انتخابات میں جس میں عبداللہ عبداللہ کو شکست ہوئی دھاندلی کی بہت زیادہ شکایات سامنے آئی تھیں۔
عبداللہ عبداللہ افغان سول وار کے دوران برہان الدین ربانی کی حکومت میں شامل رہے۔ انہوں نے اپنی رواں انگریزی اور اچھے اطوار کی وجہ سے بیرون ملک اپنا نام بنایا۔
وہ اپنے ابتدائی سیاسی کیریئر میں مشہور تاجک کمانڈر احمد شاہ محسود کے قریبی ساتھی رہے۔ احمد شادہ محسود نے 80 کی دہائی میں سویت حملے اور بعد میں طالبان حکومت کی مزاحمت کی اور نائین الیون سے دو دن پہلے القاعدہ نے انہیں قتل کیا تھا۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے 2014 کا صدارتی انتخابات لڑے تھے اور دونوں نے انتخابات میں کامیابی کا دعوے کیا تھا۔ ان کے درمیان کسی تصادم کو روکنے کے لیے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دونوں کے درمیاں پاور شیئرنگ ڈیل کرائی تھی جس کے تحت عبداللہ عبداللہ ملک کے چیف ایگزیکٹیو بن گئے اور اشرف غنی صدر۔
تاہم اس کے بعد سے عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی کے درمیان نہ ختم ہونے والی رسہ کشی جاری رہی۔ دونوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے افغان حکومتی مشینری میں اصلاحات اور اہم قانون سازی کی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوئیں۔
منتخب ہونے کی صورت میں عبداللہ عبداللہ نے افغانستان میں امن کی بحالی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ انہوں نے ملک کی معیشت کو بھی بہتر کرنے کا عزم کیا ہیں۔
’کابل کا قصائی‘ گلبدین حکمتیار
افغانستان کی دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران گلبدین حکمتیار نے کئی زندگیاں گزاری ہیں۔ افغانستان کے بدنام زمانہ وار لارڈز میں سے ایک مانے جانے والے حکمتیار سویت مخالف بھی رہے ہیں اور ملک کے وزیر اعظم بھی۔ اب وہ صدارتی امیدوار ہیں۔
ان پر 1992 سے لے کر 1996 تک جاری رہنے والے خانہ جنگی کے دوران ہزاروں لوگوں کو کابل پر شیلنگ کرکے مارنے کا الزام ہے جس کی وجہ سے ان کا نام ’کابل کا قصائی‘ پڑ گیا۔
2001 میں امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ نے حکمتیار کو طالبان اور القاعدہ کا ساتھ دینے کے الزام پر’عالمی دہشت گرد‘ قرار دیا۔ حکمتیار نے 2017 میں افغانستان کے سیاسی مین سٹریم میں اس وقت دوبارہ انٹری دی جب ان کے حزب اسلامی اور صدر اشرف غنی کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔
منتخب ہونے کی صورت میں حکمتیار نے افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے ہمیشہ کے لیے انخلا کا وعدہ کیا ہے۔
احمد ولی محسود
افغان صدارتی انتخاب میں احمد ولی محسود کو اپنے مرحوم بھائی احمد شادہ محسود کی شہرت کو کیش کرنے کی امید ہے۔ احمد شاہ محسود کا خطاب ’پنجشیر کا شیر‘ پڑ گیا تھا اور عبداللہ عبداللہ ان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔
ایک مرتبہ افغانستان کے سفیر برائے برطانیہ رہنے کے علاوہ احمد ولی محسود کا کوئی قابل ذکر سیاسی تجربہ نہیں۔ وہ گذشتہ دو دہائیوں سے اپنے بھائی کے نام پر ایک فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں۔
تاہم ملک کے تاجک اقلیتی گروہ میں وہ بہت مقبول ہیں اور اپنے آبائی صوبے پنجشیر میں وہ ایک پاور بروکر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ احمد ولی محسود 2001 سے افغان حکومت میں اپنی حیثیت سے زیادہ بااثر کردار ادا کرتے آئے ہیں۔
تاہم محسود کے الیکشن جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
دیگر امیدواروں میں سابق کمیونسٹ رہنما اور انٹیلیجنس چیف شامل ہیں۔
افغانستان کے خفیہ ادارے کے دو مرتبہ سربراہ رہنے والے رحمت اللہ نبی کا خیال ہے کہ ان کے سکیورٹی کے حوالے سے تجربہ ووٹرز کو ان کی جانب راغب کرے گا۔