پاکستان میں معاشی بحران اور اس کے نتیجے میں حکومت اور بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے درمیان قانونی پنجہ آزمائی کوئی نئی بات نہیں رہی۔ اس عدالتی جنگ کی بڑی وجہ آئی پی پیز کو کیپیسٹی چارجز اور تاخیر سے ادائیگیوں کی مد میں واجب الادا رقوم کی عدم ادائیگی ہے۔ جس کے باعث یہ کمپنیاں لندن کی بین الاقوامی مصالحتی عدالت (لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن) کا رخ کرتی ہیں۔
اس قانونی جنگ کی بڑی وجہ پہلے تو ملک کی معاشی صورتحال تھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران نیب کے خوف سے ان کمپنیوں کو رقوم جاری کرنے سے کتراتے ہیں، جس وجہ سے یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور سرکار پر مالی بوجھ میں بھی اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
پاور کمپنیاں لندن کورٹ کیوں جاتی ہیں؟
پاکستان میں انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) نے جتنے بھی پاور پلانٹ لگائے وہ 1999 اور 2002 کی پاور پالیسی کے تحت چل رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کمپنیاں مقامی ہیں لیکن یہ ثالثی کے لیے بین الاقوامی فورم کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاور پلانٹس کے لیے ان کمپنیوں اور حکومت پاکستان کے درمیان جو معاہدے کیے گئے اس میں تنازعات کے حل کا جو طریقہ کار طے کیا گیا اس میں فریقین نے لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن کو ہی آپشن رکھا گیا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/October/36496/2019/pic_1554377739.jpg)
ایک وقت تھا کہ 20 سے زائد کمپنیوں نے بیک وقت لندن کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کیا۔ ان میں سے صرف تین مقدمات کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر پاکستان کے حق میں آیا ہے، جبکہ باقی تمام مقدمات میں پاکستان کو نہ صرف بنیادی رقم ادا کرنے کا کہا گیا ہے بلکہ سود در سود کی رقم اور مقدمہ بازی کے اخراجات ادا کرنے کے احکامات بھی دیے گئے ہیں۔
صرف 2017 میں نو پاور کمپنیوں نے پاکستان کے خلاف 11 ارب روپے کے مقدمات جیتے اور عدالت نے تین ارب روپے سود ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عدالت نے مقدمات پر آنے والے اخراجات بھی حکومت پاکستان کو ادا کرنے کا حکم دیا جو 60 کروڑ روپے بنتے ہیں۔
پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے ’اردو نیوز‘ سے گفتگو میں کہا ’یہ معاہدے کرنے والوں کی بدنیتی تھی۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ بین الاقوامی ثالثی عدالتیں کبھی بھی سرمایہ کار کے خلاف فیصلہ نہیں دیتیں۔‘
اٹارنی جنرل آفس میں انٹرنیشل ڈسپیوٹ سیل کے سربراہ احمد عرفان اسلم کا کہنا ہے ’جب معاہدے کرنے والوں نے مقامی عدالت کا آپشن ہی معاہدے میں نہیں رکھا تو کمپنیاں بین الاقوامی فورم پر ہی مقدمہ کریں گی۔‘
ان کے مطابق ’سرکار نے اپنی بیوقوفی کی وجہ سے مقدمے بازی میں پیسے ضائع کیے اور موجودہ حکومت نے بھی ایک سال میں اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا۔‘
مقدمات ہارنے کی وجہ کیا؟
پاکستان میں جب آئی پی پیز پاور پلانٹس لگا رہے تھے تو اس وقت حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدوں میں جو معاملات طے پائے تھے ان میں کیپیسٹی چارجز یعنی اگر کوئی کمپنی 300 میگا واٹ کا پاور پلانٹ لگائے گی تو حکومت اس کو 300 میگا واٹ کے لحاظ سے رقم ادا کرے گی کیونکہ کمپنی نے اس صلاحیت کا انفراسٹرکچر لگایا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/October/36496/2019/000_del6295513.jpg)
اس کے بعد کمپنی جتنی بھی بجلی پیدا کرے حکومت وہ بجلی قیمتاً خریدنے کی پابند ہوگی۔ اس ادائیگی میں تاخیر پر لیکویڈیٹی چارجز بھی دینا ہونگے اور اس کے علاوہ فیول کی مد میں ایڈوانس ادائیگی بھی حکومت کو ہی کرنا تھا۔
معاشی بحران کے باعث 2007 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ ادائیگیاں روک دیں جس کے باعث حکومت کے ذمہ ایک بڑی واجب الادا رقم جمع ہوگئی۔
سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا موقف ہے ’پاکستان کے پاس پاور سیکٹر کے مقدمات لڑنے کے ماہرین نہیں ہیں اور ثالثی عدالتیں سرمایہ کار کے حق میں ہی فیصلہ دیتی ہیں اس لیے مقدمات جیتنے کی شرح کم رہی ہے۔‘
تاہم احمد عرفان اسلم سابق اٹارنی جنرل سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں ’جن مقدمات میں پاکستانی اٹارنی جنرل آفس کی ٹیم نے خود دلائل دیے وہ ہمارے حق میں آئے جہاں گورے وکیل کیے ان میں فیصلہ پاکستان کے خلاف آیا۔‘
انہوں نے انکشاف کیا ’اٹارنی جنرل آفس میں قائم انٹرنیشنل ڈسپیوٹ سیل میں 10 تو آسامیاں خالی ہیں جب کہ وزارت قانون اور اٹارنی آفس کے درمیان ان آسامیوں کو پر کرنے کے لیے ایک سال سے بات چیت ہی ہو رہی ہے۔‘
ادائیگیاں کیوں نہیں ہوتیں؟
لندن کورٹ آف انٹرنیشنل آربیٹریشن کی جانب سے پاور کمپنیوں کے حق میں فیصلے آنے کے باوجود حکومت نے یہ ادائیگیاں نہیں کیں۔ اٹارنی جنرل آفس کے انٹرنیشنل ڈسپیوٹ سیل کے انچارج احمد عرفان اسلم کے مطابق کمپنیاں سود کی رقم چھوڑنے پر بھی تیار ہیں لیکن ان کو ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ ادائیگیاں نہ کرنے کی وجہ معاشی بحران ہے یا کچھ اور تو انہوں نے کہا ’افسران نیب کے خوف سے رقم ادائیگی کی کسی بھی فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کہتے ہیں تبادلہ کردیں لیکن نیب مقدمات بھگتنے کی ہمت نہیں ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/October/36496/2019/000_del6382675.jpg)
انہوں نے انکشاف کیا ’سرکاری افسران کے سر پر نیب کا بھوت سوار کر دیا گیا ہے۔ چار وفاقی پاور سیکرٹریز نے ادائیگیوں سے انکار کیا اور کہا کہ کسی قیمت پر اس فائل پر دستخط نہیں کریں گے۔‘
احمد عرفان اسلم کہتے ہیں کہ جب تک یہ ادائیگیاں نہیں ہونگی معاملہ لٹکا رہے گا اور کمپنیاں سود کی رقم پر سود در سود لگاتی رہیں گی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اس معاملے کو جلد حل کر لیں کیوں کہ بہت جلد سی چین پاکستان اقتصادی راہداری کےتحت لگنے والے پاور پلانٹس کے مقدمات کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے۔
ان کے مطابق حکومت کو کابینہ کمیٹی تشکیل دے کر آئی پی پیز سے بات کرنی چاہیے تاکہ معاملہ عدالت سے باہر ہی حل کر لیا جائے۔
وزارت توانائی کا موقف
وزارت توانائی کے حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی کاروبار میں تنازع آنا معمول کی بات ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی جب بھی کسی پاور کمپنی کے مقدمہ میں پیش ہوتی ہے تو اس کا مقصد عوامی پیسے کی بچت ہی ہوتا ہے۔
تاہم حکام نے اس تاثر کو ماننے سے انکار کیا کہ کسی افسر نے نیب کے ڈر سے فائلوں پر دستخط نہیں کیا۔ ان کے مطابق سرکاری امور کسی ایک فرد کی مرضی کے تابع نہیں ہوتے بلکہ یہ ایک مشاورتی عمل اور پالیسی کے ذریعے چلتے ہیں۔
اس سوال پر کہ ان کمپنیوں کے ساتھ معاملات حل کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں تو حکام نے بتایا کہ وزیر توانائی اس بات کا عندیہ دے چکے ہیں کہ عدالت کے باہر معاملات حل کرنے کا اصول وضع کیا جا رہا ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں