لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے گلوکار علی ظفر کی جانب سے گلوکارہ میشا شفیع کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کے خلاف درخواست پر فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے میشا شفیع کی درخواست خارج کردی۔
لاہور سے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق عدالت نے گورنر اور صوبائی محتسب کی جانب سے میشا شفیع کی درخواستیں مسترد کرنے کے فیصلے کو درست قرار دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے علی ظفر کے خلاف میشا شفیع کی درخواست پر سماعت کی۔ میشا شفیع کی وکیل حنا جیلانی نے موقف اختیار کیا کہ ’گورنر پنجاب اور محتسب نے قانون کی روح کو سمجھے بغیر درخواست خارج کی۔‘
’میشا شفیع گلوکار علی ظفر کے پاس کام کرتی تھیں جہاں انہیں ہراساں کیا گیا۔ خاتون محتسب اور گورنر پنجاب نے میشا شفیع کی جنسی ہراسیت کے خلاف شکایت غیر قانونی طور پر مسترد کی۔
'خواتین کے تحفظ کے قانون کا ورک پلیس دائرہ کار صرف ملازمت پیشہ خواتین تک محفوظ نہیں، خاتون محتسب نے میشا شفیع کی شکایت اس بنیاد پر مسترد کی کہ وہ ملازم کی تعریف میں نہیں آتیں۔'
گلوکار علی ظفر کے وکیل سبطین فضلی نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’میشا شفیع کی درخواست محتسب نے قانون کے مطابق خارج کی۔‘
’محتسب صرف مالک اور ملازم کے مقدمات پر فیصلے کر سکتی ہے۔ میشا شفیع گلوکار علی ظفر کے پاس ملازم نہیں تھیں۔ خواتین سے متعلق قانون اس کیس پر لاگو نہیں ہوتا تھا، اس لیے محتسب اور گورنر نے میشا شفیع کی درخواست خارج کی۔‘
عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد میشا شفیع کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جس کے بعد عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے میشا شفیع کی درخواست خارج کر دی اور گورنر پنجاب کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
عدالتی فیصلے کے بعد اپنے ٹویٹ میں علی ظفر نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے میشا شفیع کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے کہ ان کی درخواست مسترد کی گئی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’موقع پرستوں کی جانب سے جھوٹے الزامات سے ہراسیت کا شکار حقیقی مظلوموں کی ساکھ بھی مجروح ہوتی ہے۔ ہم نے یہ کیس ایک مثال قائم کرنے کے لیے لڑا، عدالت میں پیش کیے گئے تمام ثبوت جلد عوام کے سامنے لائیں گے۔ آپ سب کی محبت اور تعاون کا شکریہ۔‘
یاد رہے کہ رواں برس 19 اپریل کو گلوکار میشا شفیع نے اپنی ایک ٹویٹ کے ذریعے ساتھی گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراسیت الزام عائد کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آج میں نے بولنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ میرا ضمیر مجھے مزید خاموش رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘ ’میں معاشرے میں خاموشی کا کلچر توڑ دوں گی، یہ بولنا آسان نہیں لیکن خاموش رہنا زیادہ مشکل ہے۔‘
میشا شفیع نے لکھا کہ ’اگر ایسا میرے جیسی کسی معروف فنکارہ کے ساتھ ہو سکتا ہے تو پھر کسی بھی نوجوان لڑکی کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے جو انڈسٹری میں آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس نے مجھے بہت زیادہ فکرمند کر دیا ہے۔‘
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے میشا شفیع کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی ایک بحث شروع ہو گئی ہے اور صارفین کیس پر اہنی اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
ٹوئٹر صارف حسنین ارشاد کا کہنا ہے کہ ان تمام لوگوں کو علی ظفر سے معافی مانگنی چاہیے جنہوں نے مشیا شفیع کے الزامات پر علی ظفر بدنام کیا۔
بینش جنید کا کہنا ہے کہ ‘صرف مقدمہ خارج ہونا کافی نہیں بلکہ انہیں (میشا شفیع) کو سبق بھی سکھانا چاہیے جنہوں نے خواتین کے لیے بنائے گئے قانون کا غلط استعمال کیا۔ ہمیں آپ (علی ظفر) کی اہلیہ کو بھی سراہنا چاہیے جنہوں نے دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کی۔‘
سوشل پاریاہ نامی ٹوئٹر ہینڈل سے لکھا گیا کہ ’فیصلے میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہراسیت نہیں ہوئی، بلکہ یہ کیس تکنیکی بنیادوں پر مسترد کیا گیا، آپ (علی ظفر) مقدمے سے بری نہیں کیے گئے۔‘
فاطمہ جلال خان نے قدرے مختلف موقف اپنایا۔ انہوں نے لکھا کہ ’دونوں شہرت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے سامنے ڈرامہ کر رہے ہیں۔‘