طویل رفاقت کے بعد طلاق کا فیصلہ بیوی پر بڑا بھاری پڑتا ہے۔ فوٹو:اے ایف پی
سعودی عرب میں حالیہ ایام کے دوران منظر عام پر آنے والے اعداد و شمار ظاہر کررہے ہیں کہ معاشرے میں طلاق کی شرح دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔
بعض جوڑے طویل رفاقت کے بعد بھی علیحدگی کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ خاوند اپنی بیوی کو 40 یا 50 برس کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد طلاق دے دیتے ہیں۔ طویل رفاقت کے بعد طلاق کا فیصلہ بیوی پر بڑا بھاری پڑتا ہے۔ وہ اس وقت تک اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کرچکی ہوتی ہے۔
اس حوالے سے کئی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ کیا ایسی بیوی کسی معاوضے کا استحقاق رکھتی ہے؟ شوہر کی املاک میں اس کا کوئی حصہ بنتا ہے۔ اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے اور شریعت کا موقف کیا ہے؟
سعودی ریسرچ اینڈ پبلشنگ کمپنی کے ہفت روزہ مجلے ’سیدتی‘ نے اس موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔
٭ پراویڈنٹ فنڈ (نہایتہ الخدمہ):
ڈاکٹر مازن بخاری (کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے پروفیسر اور عائلی امور کی عدالت میں مصالحتی کمیٹی کے رکن)
اگر مطلقہ خاتون بچوں کی ماں ہے تو ایسی حالت میں اسلامی شریعت نے اس کے لیے نان نفقے کا نظام مقرر کیا ہے۔ اگر اولاد نہ ہو یا عاقل بالغ ہوچکی ہو۔ ہر ایک اپنی آزادانہ زندگی گزار رہا ہو ایسی حالت میں اسلامی شریعت نے مطلقہ خاتون کے لیے پراویڈنٹ فنڈ (نہایتہ الخدمہ) مقرر کیا ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔
٭ پراویڈنٹ فنڈ کا کوئی حق نہیں بنتا:
سعد القاسم (معروف وکیل )
قانون کے بموجب مطلقہ کے لیے کسی طرح کی کوئی پراویڈنٹ فنڈ مقرر نہیں۔ عام طور پرعائلی امور کے بیشتر تنازعات صلح کے ذریعے طے ہوجاتے ہیں۔ مصالحت کرانے والے میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی کرا دیتے ہیں۔ طویل رفاقت کی صورت میں مصالحت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
طویل رفاقت کی صورت میں شوہراوربیوی کے مالی معاملات گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ شوہر کے اثاثے اس کے نام سے رجسٹرڈ ہوں اور بیوی کے اثاثوں کا اندراج اس کے نام سے ہو۔ بینکوں میں دونوں کے اکاﺅنٹ الگ الگ ہوں۔
معاشرے میں اس حوالے سے آگہی مہم بھی اشد ضروری ہے۔ بہتر ہوگا کہ شوہر اور بیوی نکاح کرتے وقت حقوق و فرائض سے متعلق منشور پر متفق ہوں۔ اس سلسلے میں قوانین کے ماہرین سے مشاورت بھی کی جانی چاہیے۔
٭ آگہی مہم:
غادہ طنطاوی(خواتین کے امور کی ماہر)
یہ بات اچھی ہے کہ وزارت انصاف مطلقہ خاتون کے حقوق کے تحفظ میں دلچسپی لیتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ بعض خواتین کو نہ اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی فرائض کا پتہ ہوتاہے۔ کئی خواتین طلاق کے وقت اپنے حقوق لینے کی جسارت ہی نہیں کرتیں۔ خواتین کے حلقوں میں آگہی مہم پر توجہ دینا بیحد ضروری ہے۔ شوہر او ربیوی کو نکاح کے وقت شادی کا منشور تیار کرنا چاہیے جس میں دونوں کے حقوق و فرائض مقرر ہوں اور طلاق کی صورت میں کسی طرح کا کوئی جھگڑا نہ ہو۔
٭ مالیاتی مسائل کا کلچر:
ترکی خان (مشاورتی مرکز کے ایگزیکٹیو چیئرمین)
میاں بیوی کا رشتہ شراکت کا ہوتا ہے۔ دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ مرد کو مالدار بنانے میں بیوی کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ طلاق کی صورت میں بیوی کو مالی نقصان پہنچتا ہے۔ ایسی خواتین جو روزگار سے محروم ہوتی ہیں وہ ایسی حالت میں بڑی بے بس ہوجاتی ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ شریعت اور قانون نے طلاق دینے والے شوہروںپر بیوی کو مقررہ رقم دینے کا پابند نہیں بنایا۔
میاں بیوی کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ مشترکہ اکاﺅنٹ کھولیں۔ اخراجات کے سلسلے میں متوازن حکمت عملی اپنائیں۔ بیوی پیسے بنانے اور بڑھانے کی مہارت پیدا کرے اور مالی اعتبار سے خود مختار بننے پر توجہ دے۔
٭ اثاثوں کی تقسیم کا قانون:
سعد القاسم کہتے ہیں کہ مغربی ممالک میں شوہر کے اثاثوں کی تقسیم کا قانون موجود ہے اسے مسلم ممالک میں نافذ کرنے کا مطالبہ مسائل پیدا کرے گا۔ وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات طلاق مردو زن دونوں کے مسائل کا حل ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اثاثوں کی تقسیم کے قانون پر عملدرآمد انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا جبکہ یہ قانون طلاق کا حق غیر منصفانہ طریقے سے استعمال کرنے والوں کو لگام لگائے گا۔
ترکی خان کا کہناہے کہ مغربی ممالک میں رائج یہ قانون کامیاب ہے۔ اسکے خوشگوار اثرات سامنے آئے ہیں۔ مسلم ممالک میں بھی اس کا نفاذبہتر ہوگا۔اس کے منفی اثرات بھی ہیں کہ بہت سارے نوجوانوں نے شادی سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں