’لاڑکانہ کے لوگوں نے بھٹو کو دفنا دیا‘
جمعہ 18 اکتوبر 2019 14:08
لاڑکانہ کو پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ مانا جاتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سیاسی اتحاد، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے گڑھ لاڑکانہ کے ضمنی الیکشن میں شکست دے دی ہے۔
غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ایس 11 میں جی ڈی اے کے امیدوار معظم عباسی نے 31 ہزار 557 ووٹ حاصل کیے جبکہ پیپلز پارٹی کے جمیل سومرو 25 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
لاڑکانہ جسے پیپلز پارٹی کا گڑھ مانا جاتا ہے، وہاں الیکشن کے غیر حتمی نتائج منظرعام پر آتے ہی ایک طرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
ایک ٹوئٹر صارف عماد یوسف نے لکھا کہ ’پیپلز پارٹی اپنے ہوم گراونڈ میں جی ڈی اے امیدوار معظم عباسی سے سیٹ ہار گئی جبکہ بلاول خود اس الیکشن کے لیے انتخابی مہم چلا رہے تھے اور پانچ دن سے لاڑکانہ میں موجود تھے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں جمیعت علمائے اسلام (ف) جی ڈی اے کے امیدوار کی حمایت کر رہی تھی وہیں پیپلز پارٹی جے یو آئی (ف) کے ’آزادی مارچ‘ کی حمایت کر رہی ہے اور ان کا بھر پور ساتھ دینے کو بھی تیار ہے۔‘
پیپلز پارٹی کی شکست پر وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی نے ٹوئٹر پر کہا کہ جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے اور آج لاڑکانہ کے عوام نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔
سفیان نامی ایک ٹوئٹر صارف نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ لاڑکانہ کے لوگوں نے بھٹو کو دفنا دیا ہے اور اب سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ دھرنا دینے کے بجائے سندھ کے لوگوں کے لیے کام کرے۔‘
ٹوئٹر صارف صبا بلوچ کا کہنا تھا کہ ’لیاری سے نکالنے کے بعد لاڑکانہ کے شہریوں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ بے شک یہ ایک شاندار جیت ہے۔ خدا لاڑکانہ کو بھٹو کی نظر سے بچائے۔‘
یاد رہے کہ پولنگ کے بعد جب ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو پپپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو اور کارکنوں کی جانب سے مبینہ دھاندلی پر الیکشن کمیشن کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
اس موقعے پر جمیل سومرو نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے آفس میں داخل ہونا چاہا لیکن اجازت نہ ملی جس کے بعد پی پی پی امیدوار نے ساتھیوں کے ہمراہ دھرنا بھی دیا تاہم بعد میں اجازت ملنے پر انہوں نے دھرنا ختم کر دیا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں