بورس جانسن کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وزیراعظم بریگزٹ تاخیر پر راضی ہوگئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن یورپی یونین سے علیحدگی میں تاخیر کی درخواست پر مشتمل خط لکھا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیراعظم جانسن کے قریبی ذرائع نے اس کی تصدیق کی ہے۔ تاہم خط لکھنے کے بعد بورس جانسن نے یورپی یونین کو ایک الگ نوٹ میں لکھا ہے کہ ان کے خیال میں بریگزٹ میں تاخیر غلطی ہوگی۔
اس سے قبل سنیچر کو برطانوی ارکان پارلیمان نے وزیراعظم بورس جانسن کی یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر مزید تاخیر کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو برطانوی ارکان پارلیمان کا کہنا تھا کہ انہیں ڈیل کا مطالعہ کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔
سنیچر کو ہونے والی ووٹنگ میں ارکان پارلیمان نے اس قانون کی توسیع کی ہے جو وزیراعظم جانسن کو بریگزٹ کے معاملے پر یورپی یونین سے اگلے سال جنوری تک توسیع لینے پر مجبور کرتا ہے۔
بورس جانسن نے پارلیمان کے اس فیصلے کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بریگزٹ میں تاخیر پر یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے اور نہ ہی قانون ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
خیال رہے کہ موجودہ قانون کے مطابق اگر برطانوی پارلیمان 19 اکتوبر تک بریگزٹ کے حق میں فیصلہ نہ دیں تو وزیراعظم بورس جانس یورپی یونین سے تاخیر کی درخواست کریں گے۔
322 ارکان نے تاخیر کے حق میں ووٹ ڈالا۔ فوٹو: اے ایف پی
خبر رساں ادارے رؤئٹرز کے مطابق کل 322 پارلیمان نے تاخیر کے حق میں ترمیم کے لیے ووٹ دیا جبکہ 306 ارکان اسمبلی نے ترمیم کی مخالفت کی۔ خیال رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کی کل تعداد 650 ہے۔
واضح رہے کہ پرانے قانون کے مطابق برطانیہ نے یورپی یونین سے رواں سال 31 اکتوبر کو علیحدہ ہو جانا تھا۔ معاہدے پر کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں برطانیہ خود بخود 31 اکتوبر کو مقامی وقت کے مطابق رات گیارہ بجے یورپی یونین سے علیحدہ ہو جاتا۔
لیکن 9 ستمبر کو ملکہ برطانیہ نے نئے قانون کی تائید کر دی تھی جس کے مطابق برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل 31 جنوری 2020 تک مؤخر ہو سکتا ہے۔
برطانوی پارلیمان کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یورپین کمیشن نے کہا کہ بورس جانسن پارلیمان سے ایک دفعہ پھر ووٹ ہارنے کی صورت میں یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر کس طرح سے آگے بڑھیں گے؟
یورپین کمیشن کی ترجمان کا کہنا ہے کہ برطانوی حکومت ان کو آئندہ کے لائحہ عمل پر جلد سے جلد آگاہ کرے۔
دوسری جانب فرانس نے کہا ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی میں مزید تاخیر کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔
فرانس کے صدارتی ترجمان نے کہا کہ معاہدہ طے پا چکا ہے، اب یہ برطانوی پارلیمان پر منحصر ہے کہ وہ اسے قبول یا مسترد کریں۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے جمعرات کو بورس جانسن نے اعلان کیا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے یورپی یونین کے ساتھ نئے معاہدے پر متفق ہو گیا ہے۔
جانسن نے کہا تھا کہ ’ہم ایک نئے اچھے معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔‘ انہوں نے برطانوی ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ نئے معاہدے کی منظوری دے دیں۔
تاخیر کی ترمیم رکن پارلیمنٹ اولیور لیٹون نے پیش کی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
اس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ کا اجلاس آج یعنی ہفتے کو بلایا گیا تھا۔
برطانیہ کی حکمران کنزرویٹیو پارٹی کے کچھ باغی اور اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے 31 اکتوبر کو بغیر کسی معاہدے کے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کو روکنے کے لیے بل منظور کروانے کے پہلے مرحلے میں بھی حکومت کو شکست دے دی تھی۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم تھریسا مے کی یورپی یونین سے علیحدگی کی ڈیل کو پارلیمنٹ نے تین مرتبہ مسترد کر دیا تھا جس کے بعد انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔
برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے معاملے پر ریفرنڈم 23 جون 2016 کو ہوا تھا۔
ریفرنڈم میں 51.9 فیصد برطانوی ووٹرز نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 48.1 افراد نے یورپی یونین سے نکلنے کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کے نتائج پر عمل درآمد کیا جائے گا۔