بورس جانسن نے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی تاریخ 31 اکتوبر مقرر کر رکھی ہے، فوٹو: اے ایف پی
برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے یورپی یونین کے ساتھ نئے معاہدے پر متفق ہو گیا ہے۔ وزیراعظم نے اس بات کا اعلان جمعرات کو اپنے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے کیا۔
جانسن نے اعلان کیا کہ ہم ایک نئے اچھے معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے برطانوی ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ نئے معاہدے کی منظوری دے دیں۔
واضح رہے کہ بریگزٹ کے حوالے سے برطانوی پارلیمنٹ کا اجلاس ہفتے کو بلایا گیا ہے۔
برطانیہ میں اب تمام نظریں لندن میں ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس پر لگ گئی ہیں کہ آیا وزیراعظم بورس جانسن کے پاس اتنی اکثریت ہے کہ وہ رواں ماہ کے دوران ہی پارلیمنٹ سے نیا معاہدہ منظور کروا لیں۔
بڑی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن نے نئے معاہدے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’ارکان پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ نئے معاہدے کو مسترد کر دیں۔‘
ایک بیان میں ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ایسا نظر آتا ہے کہ وزیراعظم جانسن نے تھریسا مے سے بھی بدتر ڈیل کی ہے۔‘
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ’نئے معاہدے کی تجاویز خوراک کے تحفظ کو خطرے میں ڈال دیں گی اور ریاست کے صحت سے متعلق مفت نظام کو امریکی کارپوریشنز اپنے قبضے میں لے لیں گی۔‘
دوسری جانب شمالی آئرلینڈ کی ڈیموکریٹک یونینسٹ (ڈی یو پی) پارٹی نے بھی نئے معاہدے پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔ پارٹی کے ایک ذریعے نے کہا ہے کہ وہ ’بریگزٹ کے بعد کسٹمز اور بارڈر ایشوز سے متعلقہ تجاویز کی حمایت نہیں کر سکتی۔‘
ڈی یو پی کے ذریعے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’سیلز ٹیکس کے معاملے پر بھی ابہام موجود ہے۔‘
دوسری جانب یورپی کمیشن کے جین کلیوڈ جنکر نے کہا ہے کہ برسلز کا بریگزٹ کے حوالے سے برطانیہ کے ساتھ نیا معاہدہ ہو گیا ہے جسے یورپی رہنماؤں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی حتمی منظوری یورپی کونسل دے گی۔
’جب آپ کا ارادہ ہو تو آپ ڈیل بھی کر سکتے ہیں اور ہم نے ایسا کر لیا ہے۔ یہ یورپی یونین اور برطانیہ کے لیے ایک شفاف اور متوازن معاہدہ ہے۔ اس سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمارے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ آج جمرات کو برسلز میں یورپی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں اس معاہدے کو منظوری کے لیے یورپی رہنماؤں کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وزیراعظم بورس جانسن نے یورپی یونین سے برطانیہ کے الگ ہونے تاریخ 31 اکتوبر مقرر کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ برطانیہ کی حکمران کنزرویٹیو پارٹی کے کچھ باغی اور اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے 31 اکتوبر کو بغیر کسی معاہدے کے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کو روکنے کے لیے بل منظور کروانے کے پہلے مرحلے میں حکومت کو شکست دے دی تھی۔
اس رائے شماری کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ وہ قبل از وقت الیکشنز کرانے کے لیے قرارداد لائیں گے۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم تھریسا مے کی ڈیل کو پارلیمنٹ نے تین مرتبہ مسترد کر دیا تھا جس کے بعد انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔
واضح رہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے معاملے پر ریفرنڈم 23 جون 2016 کو ہوا تھا۔
ریفرنڈم میں 51.9 فیصد برطانوی ووٹرز نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 48.1 افراد نے یورپی یونین سے نکلنے کی مخالفت کی تھی۔ اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ ریفرنڈم کے نتائج پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
واٹس ایپ پر خبریں حاصل کرنے کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں