پاکستانی فلم ساز جامی آزاد نے جنسی ہراسانی کے خلاف دنیا بھر میں چلنے والی ’می ٹو‘ مہم کی حمایت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ کئی سال قبل انہیں پاکستانی میڈیا کے ایک با اثر شخص نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
جامی نے لکھا ہے کہ وہ ’می ٹو‘ مہم کی شدت سے حمایت اسی لیے کرتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے والے شخص کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو 13 سال گزر گئے ہیں اور وہ اب بھی اپنے آپ کو کوستے ہیں کہ انہوں نے ’اس شخص کی آنکھیں کیوں نہیں نکال دیں‘۔
واضح رہے کہ جامی نے متعدد مقبول فلموں میں کام کیا ہے، جن میں ’مور‘، ’زندہ بھاگ‘ اور ’O21‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے گانوں کی ویڈیوز بھی بنائی ہیں جن میں سٹرنگز اور فیوژن بینڈز کے علاوہ عاطف اسلم، علی عظمت اور حدیقہ کیانی کے گانے شامل ہیں۔
Tragedy of Desi society is that as if so many were waiting for #metoo to fail backfire. Entire colossal efforts are pouring out today to discredit this movement knowing every movement has elements which are open to anyones action which cud hurt the trust. But sadly so much power
— jami (@jamiazaad) October 20, 2019
جامی نے کہا کہ ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والا شخص ان کا قریبی دوست تھا، جس کے لیے وہ کام کر رہے تھے۔
’اسی لیے مجھے سمجھ نہیں آیا یا مجھے یقین ہی نہیں ہوا کہ ہو کیا رہا ہے۔ میں نے اپنے کچھ قریبی دوستوں کو بتایا لیکن کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ میں نے انہیں اس شخص کا نام بھی بتایا لیکن سب نے سمجھا کہ میں کوئی مسخرہ ہوں۔‘
is generated for hating women or #metoo is mind boggling. If this power was used for awareness and cleaning up the court system instead of backstabbing thousands of true victims and so many others, by now we could ve gained the trust of so many victims.
— jami (@jamiazaad) October 20, 2019
جامی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انہوں نے چھ مہینے کراچی کے آغا خان ہسپتال میں گزارے اور پھر کچھ مہینوں کے لیے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے۔
’یہ شخص میرے والد کی تدفین پر بھی آیا تھا اور اپنے والد کی وفات پر رونے کے بجائے میں اپنے ہی گھر میں چھپا ہوا تھا، اور اپنی والدہ کو کہہ رہا تھا کہ اس شخص کو اندر آنے سے روکیں۔‘
Why im so strongly supporting #metoo ? cuz i know exactly how it happens now, inside a room then outside courts inside courts and how a survivor hides confides cuz i was brutally raped by a very powerful person in our media world. A Giant actually. and yes im taller than him but
— jami (@jamiazaad) October 20, 2019
جامی نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ آج تک ان میں اتنی ہمت نہیں بن پائی ہے کہ وہ اس شخص کا نام لے سکیں۔
I froze not sure why yesss it really happens and happened to me. Till this day 13 years ve passed i curse myself why i didnt take his eyes out but i was so close to this guy a friend, doing his mega shoots for his mega high end books and museum launches etc may be thats why my
— jami (@jamiazaad) October 20, 2019
’یہ بہت مشکل ہے، میں جانتا ہوں میرے اپنے دوست ہی میرا مذاق اڑائیں گے۔ ہم سب دیسی ایسا کرتے ہیں۔‘
حال ہی میں جنسی ہراس کے الزام پر لاہور کے ایک کالج میں ایک پروفیسر کی خودکشی کے واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے جامی نے لکھا کہ ایسے ایک واقعے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر متاثرہ شخص جھوٹا ہے۔ ’مجھے اس بات پر غصہ ہے کہ لوگ متاثرین کو اور اس مہم کو نشانہ بنا رہے ہیں اسی لیے آج میں 13 سال بعد یہ کہنے کے لیے یہاں آیا ہوں کہ 99.99 فیصد متاثرہ افراد ہمیشہ سچ بول رہے ہوتے ہیں۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں