Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرڈیننس سے قانون سازی پر اختلافات

اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم نے معاملہ اگلے اجلاس تک موخر کر دیا۔ فوٹو پی آئی ڈی
پاکستان کی وفاقی کابینہ میں آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی کے حوالے سے اس وقت اختلافات پیدا ہو گئے جب وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کے گذشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں وزارت قانون کی جانب سے چھ آرڈیننس منظوری کے لیے پیش کیے گئے۔
اجلاس میں وزارت قانون کی رائے تھی کہ پارلیمان کے ذریعے قانون سازی میں تاخیر ہو رہی ہے اس لیے آرڈیننسز کے ذریعے قانون سازی کی جائے۔ تاہم کابینہ میں اس معاملے پر منقسم آرا سامنے آئیں۔
کابینہ اجلاس کے حوالے سے اردو نیوز کے پاس موجود دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ کابینہ اجلاس میں وزارت قانون کی جانب سے چھ آرڈینینس منظوری کے لیے پیش کیے گئے۔

وزیر قانون نے تجویز دی ہے کہ چھ آرڈینینسز  فوری جاری کیے جائیں۔ فوٹو: پی آئی ڈی

وزارت قانون نے اپنی سمری/ بریفنگ میں بتایا کہ ان چھ آرڈیننسز میں چار پہلے ہی بل کے طور پر قومی اسمبلی میں پیش کیے جا چکے ہیں اور قائمہ کمیٹیوں کے پاس ہیں لیکن ابھی تک منطوری نہیں ہوسکی۔ ان چار مسودہ قوانین میں نادرا سے وراثتی سرٹیفکیٹ کے اجرا کا بل 2019، جائیداد میں خواتین کو حصہ دینے سے متعلق بل 2019، لیگل اینڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2019 اور عدالتی ضابطہ لباس و بیان بل 2019 شامل ہیں۔
وزارت قانون نے بتایا ہے کہ بے نامی ٹرانزیکشنز کی روک تھام کے لیے انسداد بے نامی ٹرانزیکشنز ترمیمی بل 2019 اور نیب ملزمان کو سی کلاس دینے سے متعلق نیب ترمیمی بل 2019 بھی تیار کر لیے گئے ہیں۔
وزارت قانون کا کہنا تھا کہ کابینہ نے گذشتہ اجلاسوں میں وفاقی وزیر قانون کو ہدایت کی تھی وہ آئینی اصلاحات کے حکومتی ایجنڈے کی تکمیل اور عوامی مفاد کے لیے ان قوانین کے جلد اطلاق کے طریقہ کار کا تعین کریں۔

وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ حکومت آرڈینینس کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔ فوٹو: پی آئی ڈی

حکام کا موقف تھا کہ وزیر قانون نے تمام مسودہ قوانین کا جائزہ لینے کے بعد تجویز دی ہے کہ چھ آرڈیننس فوری طور پر جاری کیے جائیں۔ اس حوالے سے مجوزہ مسودہ جات بھی کابینہ اجلاس میں پیش کیے گئے جو اردو نیوز کے پاس دستیاب ہیں۔
وزیر اعظم نے جب ارکان کو مجوزہ قوانین کے بارے میں رائے دینے کا کہا تو کئی وفاقی وزرا نے ان آرڈیننسز کے اجرا کی مخالفت کی۔ کابینہ اجلاس کے حوالے سے دستاویزات کے مطابق وزرا کا موقف تھا کہ زیادہ تر مسودہ قوانین کا تعلق مفاد عامہ سے ہے۔ اس لیے آرڈیننس کے بجائے انہیں پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔
کئی دیگر ارکان نے اپنے ساتھی وزرا کی رائے سے اختلاف کیا کہ پارلیمان کے ذریعے قانون سازی کا عمل بہت طویل ہے۔ اس لیے عوام کو ریلیف دینے کے لیے آرڈیننس کا اجرا ہی بہتر آپشن ہے۔
کابینہ میں معاملے پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے وزیر اعظم نے معاملہ اگلے اجلاس تک موخر کر دیا۔
کابینہ اجلاس میں پیش آنے والی اس صورتحال پر حکومت کا موقف جاننے کے لیے اردو نیوز نے وزیر قانون فروغ نسیم اور معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن دونوں دستیاب نہ ہو سکے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان خود بھی کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن کے عدم تعاون کی صورت میں حکومت اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کے لیے آرڈیننسز کے ذریعے قانون سازی کرے گی۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: