Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کے عہدے کا تقدس

لائک اور ری ٹویٹ کا چسکہ چائے سے بھی برا ہے۔ فوٹو: ان سپلیش
کچھ دن پہلے ہی ایک کرم فرما کی طرف سے تبصرہ آیا کہ کالموں میں یکسانیت آنے لگی ہے۔ تمام موضوعات اور لکھنے کا سٹائل اب ازبر ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ اچھوتا پن لے کے آئیے۔ ورنہ کچھ ہی عرصے میں قارئین بھی اکتانے لگیں گے۔ ہمیں تنقید سننا بالکل پسند نہیں ہے۔ اگر ان کی بات صحیح بھی تھی تو ہم نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا مناسب سمجھا اور اپنی تحریر کا دفاع یوں کرنے لگے کہ جیسے کشمیر کا مورچہ ہو۔ جب ہمارے گولے ختم ہونے لگے تو ان کو کہا کہ بھئی آپ کو کیا معلوم۔ ریٹنگ بہترین ہے۔ اس بات پر وہ کیا کہتے۔۔۔ خاموشی چھا گئی۔
دیکھیے جو ہے سو ہے۔ ادب کی ترویج و ترقی بالکل ضروری ہے لیکن سب ٹھیکہ ہم ہی نے تو نہیں اٹھا رکھا ناں۔ جن کو یہ شوق ہے وہ ضرور پورے کریں لیکن ہم سے غیر ضروری فرمائشیں نہ کریں۔ ہم ایک پروفیشنل لکھاری ہیں۔ ایک فلم ایکٹر کی طرح ہمیں بھی محض اسی بات سے سروکار ہے کہ ویب سائٹ پر زیادہ سے زیادہ ہِٹ آئیں۔ اخبار کا بزنس چمکے۔ آخر ہماری روزی بھی تو ان کے کاروبار سے ہی وابستہ ہے۔
اس لیے اگر کبھی کبھار کوئی متنازع بات بھی ہو جائے تو نہ ہمیں ٹینشن ہوتی ہے اور نہ ہی ایڈیٹر صاحب کو۔ چار لوگ برا بھلا بھی دیں تو ریٹنگ اوپر ہی جاتی ہے۔ یہ بازی دونوں طرف سے برابر جیتی جاتی ہے اور دونوں پارٹیوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ دیکھیے اس دنیا میں صرف ایک ہی جنگ ہے اور وہ معیشت کی ہے۔ ہمیں کھری کھری سنانے سے پہلے بجلی کا بل ضرور دیکھ لیجیے گا۔ 
ویسے لائک اور ری ٹویٹ کا چسکہ چائے سے بھی برا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اپنا جعلی عکس یوں ہی لوگوں پر جماتے رہیں۔ یوں ہی تعریفیں بٹورتے رہیں۔ روز صبح اٹھ کر فالوورز کی تعداد ہی دیکھتے ہیں۔ کالم کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ ویسے مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ کلک بھی وہی خبر یا کالم کرتے ہیں جس میں کسی فلمی اداکارہ کے خفیہ افیئر کی بات ہو یا کسی کرکٹر کی فرانس میں منائی جانے والی چھٹیوں کا احوال ہو۔ 

اب خبر بھی وہی چھاپی جاتی ہے جس میں ’ٹرینڈ‘ کرنے کی صلاحیت ہو۔ فوٹو: ان سپلیش

یوں تو کوئی بھی ادیب یا صحافی ہمیں پڑھنے سے اجتناب برتتے ہیں لیکن اگر اس وقت کوئی ہم پیشہ حضرت سامنے بیٹھے ہوں تو یہ بات مانیں گے کہ خبر بھی وہی چھاپی جاتی ہے کہ جس میں ’ٹرینڈ‘ کرنے کی صلاحیت ہو۔
ایک اور رسالے کے لیے بھی کام کرتے ہیں جہاں روز صبح ’ٹرینڈنگ‘ موضوعات کی لسٹ موصول ہو جاتی ہے کہ ہاں بھی کرائے کے ٹائپ رائٹروں، شروع ہو جاؤ۔ خبر تو اوپر سے دی جائے گی۔ بس اس میں گرامر اور زبان کی غلطیاں دیکھ لو۔ نہ بھی دیکھو تو ’کی ورڈ‘ میں محتاط رہنا۔ باقی کیا ہوتا ہے، کیا نہیں ہوتا ہماری بلا سے۔
ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے آپ کی خیالی دنیا کا بلبلہ پھاڑ دیا ہے۔ لیکن آپ سچ کے شیدائی ہیں۔ سوچا آپ کو من و عن سب بات کلیئر بتا دی جائے۔ کسی قسم کی گول مول بات نہ کی جائے۔ آپ کو ہم پر بہت غصہ آ رہا ہے لیکن ہمیں آپ کا لال پیلا منہ دیکھ کر بالکل غصہ نہیں آ رہا۔ آپ بھی انسان ہیں۔ آپ کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ آپ کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ آپ کے گھر والوں کی کل کائنات آپ ہیں۔ ہماری بھی ریٹنگ آپ ہی کی مرہون منت ہے۔
دیکھیے، اس سب میں ہمارا کیا قصور؟ جو آپ پڑھنا چاہتے ہیں۔ ہم لکھ ڈالتے ہیں۔ ہم تو آپ کے تابع ہیں۔ اسی چکر میں تعمیری تنقید کو بھی ملحوظ خاطر نہیں لاتے کہ ہماری زندگی کا اولین مقصد آپ ہی کی خوشنودی ہے۔ ہمیں مت کوسیے۔ اپنے گریبان میں جھانکیے۔
کچھ دنوں سے کئی اہم خبروں کا دور دورہ ہے۔ ہم تک ٹرینڈنگ لسٹ آ چکی ہے۔ ان میں سب سے اہم خبر ایک خاتون کا دفتر خارجہ میں ٹک ٹاک ویڈیو بنانا ہے۔ لوگوں کو اس بات سے شدید تشویش ہوئی ہے کہ اس قدر اعلیٰ و ارفع عہدے کا تقدس پامال ہوا ہے۔ ان کی فکر بجا ہے کہ آج تک پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ کبھی کسی نے وزیر اعظم ہاؤس کے ’باتھ ٹب‘ میں ریلیکس کرتے ہوئے کسی کا شو نہیں دیکھا۔ یہ پہلی بار ہوا ہے۔

حریم شاہ کو وہی شہرت ملی جو وہ چاہتی تھیں۔ فوٹو: فیس بک

ملک کے پہلے گورنر جنرل کی ایمبولینس کا پیٹرول ختم کبھی نہیں ہوا۔ پہلے وزیر اعظم کا قتل بالکل نہیں ہوا۔ منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر اتنی سفاکی سے نہیں لٹکایا گیا کہ گھر والے بھی لاش کا منہ دیکھنے کو ترستے رہیں۔ اسی وزیراعظم کی بیٹی کو گولیوں کا  نشانہ نہیں بنایا گیا۔ سابق صدر کو جیل میں نہیں ڈالا گیا۔ تین بار منتخب وزیر اعظم کو اس وقت ہسپتال نہیں لایا گیا کہ جب ان کی حالت خطرے میں چلی گئی۔ ان کی بیٹی کو ان کی تیمارداری کرنے کے لیے بھی لمبی چھٹی دے دی گئی۔ تمام منتخب وزرائے اعظم کو ان کی مدت پوری کرنے دی گئی۔ حکومت ختم ہونے پر انہیں عبرت کا نشان نہیں بنایا گیا۔
واقعی ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس لیے وزیراعظم کے عہدے اور محل دونوں کا تقدس پامال ہوا ہے۔ کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ 
ویسے آپس کی بات ہے خاتون کامیاب ہیں۔ انہیں وہی ریٹنگ ملی جو وہ چاہتی تھیں۔ ہر زبان پر انہی کا چرچا ہے۔ آخر کیوں نہ ہو؟ ٹک ٹاک ویڈیو دیکھ کر مزا آتا ہے۔ معیشت کی بے بسی یا سیاسی قیدیوں کے حقوق پر کون اپنا وقت برباد کرے؟ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ ساہیوال میں مرنے والوں کے قاتلوں کو معاف کرنے پر جواب طلب کرے؟ اتنا فالتو غصہ نہیں ہے۔ کام کی باتوں پر آتا ہے۔ ان خاتون کو دفتر خارجہ میں ٹک ٹاک ویڈیو نہیں بنانی چاہیے تھی۔ اس میں انڈین گانا تو بالکل نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ آپ کا غصہ جائز ہے۔
اس تاریخی کالم کے اختتام پر ہم ایک بار پھر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں ریٹنگ کے اسرار و رموز سے آشنا کرایا اور ہمیں یہ شعور بخشا کہ صرف اسی موضوع پر بات کریں جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ آپ بھی یہی علم آپ کے ساتھ بانٹنے پر ہمارا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ علم کی شمع جلتی رہنی چاہیے اور کالم کی ریٹنگ بڑھتی رہنی چاہیے۔

شیئر: