Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’عدالت کا کندھا استعمال نہ کریں‘

نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر تفصیلی سماعت منگل 29 اکتوبر کو ہوگی۔ فوٹو:اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں منگل تک عبوری ضمانت دے دی ہے۔ سنیچر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست سے متعلق ایک متفرق درخواست دائر ہوئی جس میں استدعا کی گئی کہ سابق وزیر اعظم کی صحت تشویشناک ہے اور ان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت آج ہی کی جائے۔
یہ اطلاع موصول ہوتے ہی دفتر سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف روانہ ہونے کا اردہ کیا تو اطلاع ملی کہ  درخواست سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہے اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بنچ سوا 12 بجے مقدمے کی سماعت شروع کرے گا۔
ضمانت کی درخواست پر سماعت اگرچہ جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کر رہا تھا لیکن سنیچر کو جسٹس عامر فاروق کے چھٹی پر ہونے کی وجہ سے اب یہ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کرنا تھی۔
یہ سماعت اتنی دلچسپ تھی کہ شاید ہی اس سے قبل ملکی عدالتی تاریخ میں ایسی سماعت دیکھنے کو ملی ہو کیونکہ عدالت نے نواز شریف کو ضمانت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ حکومت اور دیگر فریقین کے موقف سے مشروط کر دیا تھا۔
درخواست پر سماعت تقریباً ساڑھے 12 بجے شروع ہوئی جو مختلف وقفوں کے بعد شام پونے سات بجے تک جاری رہی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ، جسٹس اطہر من اللہ نے جیل مینول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قیدی کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کا معاملہ صوبائی حکومت کا ہے۔ اس حوالے سے قانون موجود ہے پھر یہ معاملہ عدالت میں کیوں آیا؟

ہائی کورٹ میں وکلا اور صحافیوں کا رش تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

جسٹس محسن اختر کیانی جو کہ سابق وزیر اعظم کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پہلے سے سن رہے ہیں نے کہا کہ جب عدالت نے اس مقدمے کو 29 اکتوبر تک ملتوی کر دیا ہے تو پھر اچانک ایک رات میں ایسا کیا ہوا کہ آپ کو آج سماعت کے لیے درخواست دائر کرنا پڑی؟
اس کے جواب میں نواز شریف کی قانونی ٹیم نے عدالت کو سابق وزیراعظم کی صحت سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جو میڈیکل رپورت جمعے کو عدالت کے سامنے پیش کی گئی وہ 24 اکتوبر کی ہے اور اس میں 24 اور 25 اکتوبر کی درمیانی شب کو ہونے والی صورتحال کا ذکر موجود نہیں۔
’نواز شریف کو چھاتی اور بازو میں درد محسوس ہو رہا ہے اور ان کی حالت کافی زیادہ تشویشناک ہو چکی ہے۔‘
ابھی نواز شریف کے وکلا اپنے موکل کی طبی صورتحال سے آگاہ کر ہی رہے تھے کہ اچانک ایک نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر کا موبائل فون بجنا شروع ہو گیا اور عدالت میں موجود جج صاحبان سمیت تمام افراد کی توجہ بٹ گئی۔
اس پر جسٹس محسن اختر نے عدالت کے اردلی کو حکم دیا کہ ان سے موبائل لے لیا جائے جو کہ بعد میں ایک ہزار روپے جرمانہ ادا پر لوٹا دیا گیا۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ عدنان نے جج صاحبان کی توجہ اپنی طرف مبذول ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم کی صحت سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو دل کا معمولی دورہ پڑا ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور ہر یہ معاملہ حکومت کو دیکھنا ہے۔ انہوں نے رجسٹرار آفس کو ہدایت کی کہ اس معاملے میں وزیراعظم عمران خان، وزیراعلی پنجاب اور چئیرمین نیب کو نوٹسز بھیجیں جائیں اور ان کا نمائندے عدالت میں پیش ہو کر بتائے کہ کیا وہ سابق وزیر اعظم کی منگل تک ضمانت کے حق میں ہیں یا اس درخواست کی مخالفت کرتے ہیں۔

نواز شریف کی ضمانت کی درخواست شہباز شریف نے جمع کروائی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ مخالفت کی صورت میں وزیراعظم، وزیراعلی اور چئیرمین نیب کے نمائندوں کو ایک بیان حلفی جمع کرانا ہوگا جس میں اس بات کی ذمہ داری لی جائے گی کہ منگل تک سابق وزیراعظم کو کچھ ہوا تو ذمہ داری ان پر عائد ہوگی۔
اس کے ساتھ عدالت نے ایک اور حکمنامہ بھی جاری کیا جس میں انہوں نے نجی ٹی وی چینلز کے اینکرز کی جانب سے اپنے پروگرامز میں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست کو زیر بحث لانے اور ڈیل کی تاثر دینے کا نونٹس لیتے ہوئے اینکرز کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت شام چار بجے تک ملتوی کر دی۔

’جواب ہاں یا نہ میں دیں‘

نواز شریف کی ضمانت سے متعلق درخواست پر عدالت میں وفاقی حکومت کی جانب سے سیکرٹری داخلہ پیش ہوئے، عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کی اس معاملے میں کیا رائے ہے؟ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ’یہ صوبائی حکومت کا معاملہ ہے اور صوبے خود مختار ہیں، میں اس حوالے سے کوئی موقف نہیں دے سکتا۔‘
عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا تو انہوں نے بھی کوئی واضح موقف دینے سے معذرت کر لی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’کیسے حکومتی ترجمان کہتے ہیں کہ جو فیصلہ عدالت کرے گی اور وہ ہمیں منظور ہوگا؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جیل ایکٹ کے رولز 143  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی قیدی کی طبیعت خراب ہوتی ہے تو صوبائی حکومت کا یہ کام ہے کہ اس کی بیماری کے پیش نظر فیصلہ کرے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ بیماری تشویشناک ہے تو محکمہ داخلہ سزا معطل کر کے علاج کی اجازت دے سکتا ہے۔ اس معاملے کو عدالت میں آنا ہی نہیں چاہیے۔‘
عدالت نے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کو جیل میں بیمار قیدیوں کو دی جانے والی سہولیات اور حکومتی اقدامات کے حوالے سے بھی تفصیلات جمع کروانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومت کو واضح جواب دینے کے لیے مہلت دیتے ہوئے سماعت میں ایک بار پھر آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نئیر رضوی نے کہا کہ نیب انسانی بنیادوں پر اس درخواست کی مخالفت نہیں کرے گی۔ فوٹو: ٹویٹر

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو سیکرٹری داخلہ سے جب ضمانت دینے کی مخالفت کرنے یا نہ کرنے کا جواب مانگا گیا تو انہوں نے پھر کوئی واضح موقف دینے سے معذرت کی۔ جس پر چیف جسٹس برہم ہوئے اور کہا کہ ’عدالت کا کندھا استعمال کر کے سیاست مت کریں۔ میڈیکل بورڈ حکومت نے تشکیل دیا ہے اور آپ ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جو آپ تینوں (نیب، وفاقی اور صوبائی حکومت) فیصلہ کرے گی عدالت بھی وہی فیصلہ کرے گی۔ اگر آپ مخالفت کرتے ہیں تو میں درخواست ابھی خارج کر دیتا ہوں لیکن آپ کو بیان حلفی جمع کروانا ہوگا۔‘
سیکرٹری داخلہ نے عدالت سے 10 سیکنڈ بولنے کی اجازت مانگی تو چیف جسٹس نے کہا یس اور نو، نو آرگومنٹس!!!
عدالت نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندوں کو ایک بار پھر واضح جواب جمع کروانے کے لیے آدھے گھنٹے کا وقفہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی پنجاب اور وزیراعظم سے پوچھ لیں، میڈیکل بورڈ سے بھی مشورہ کر لیں لیکن عدالت کے سامنے واضح موقف اپنائیں۔
وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت کا آغاز ہوا تو سیکرٹری داخلہ اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کے پاس عدالت کو دینے کے لیے کوئی واضح جواب نہ تھا۔ نہ وہ بیان حلفی جمع کروانے کو تیار تھے نہ ہی ضمانت دینے کے حوالے سے رضا مندی کا اظہار کر رہے تھے۔
ایسے میں نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نئیر رضوی بولے کے نیب انسانی بنیادوں پر اس درخواست کی مخالفت نہیں کرے گی جس پر عدالت نے 20،20 لاکھ کے دو مچلکوں کے عوض سابق نواز شریف کی 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کر لی۔
عدالت نے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کو بھی 29 اکتوبر کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح عدالت نے نجی ٹی وی کے ایک اینکر چیف ایگزیکٹو آفیسر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا بھی حکم دیا اور دیگر اینکرز سے تحریری طور پر جواب طلب کر لیا۔

شیئر:

متعلقہ خبریں