اگر آپ شہر کراچی کے باسی ہیں اور شہر کی سڑکوں پر گھومتے ہیں تو یقیناً آپ تک ’زہر‘ کے چند چھینٹے ضرور پہنچے ہوں گے۔ اصلی سانپ کے زہر اور اس زہر میں ایک بڑا زہریلا فرق ہے، وہ یہ کہ اس اصلی سانپ کا زہر اس کے جسم کے اندر ہوتا ہے پراسے نقصان نہیں پہنچتا البتہ اگر وہ کسی کو کاٹ لے تو موت کا سامان ہوجاتا ہے، لیکن کراچی میں کمال یہ ہے کہ ’زہر‘ کوئی اور کھاتا ہے اور اپنے لیے موت کے ساتھ دوسروں کے لیے زحمت کا سامان کرتا رہتا ہے۔ اب تک کی تحریر سے اگر آپ حیرت میں مبتلا ہو گئے ہوں تو ذرا ٹھہریں۔ کچھ دیر میں آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ آخر یہ کس زہرکا ذکر ہو رہا ہے۔
یہ زہر کراچی کی سڑکو ں پر جگہ جگہ پایا جاتا ہے بلکہ مختلف طریقوں سے دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بائیک کی مدد سے، کہیں گاڑی کے اندر سے پھینکا جاتا ہے تو کہیں قریب سے گزرتی بس سے آ ٹپکتا ہے۔ ہاں ہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ آپ پھر حیران ہو گئے؟
آپ بہت حیران وپریشان ہوں گے کہ آخر یہ کون ہیں جو اس طرح زہر چھوڑتے پھر رہیں ہیں۔ ویسے تو یہ زہر چھوڑنے والے پورے ملک میں موجود ہیں لیکن کراچی میں ان کی تعداد خاصی ہے۔
جی جناب! ایسا کون سا زہر ہے جو دوسروں کے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے خطرناک ہے؟ اسے گٹکا کہتے ہیں۔ یہ سلو پوائزن ہی تو ہے جو آہستہ آہستہ مختلف بیماریوں میں کھانے والوں کو مبتلا کردیتی ہے اور پھر وہ خطرناک بیماریاں ان لوگوں کو موت کے منہ میں لے جاتی ہیں۔
اب بات تھوڑی سنجیدہ ہوچکی ہے پراس موضوع کو اٹھانے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو بالائی پیراگراف میں رقم کر چکا ہوں اور اس موضوع کو لکھنے کی دوسری وجہ اس زہر کا ڈرون حملہ ہے۔ ہاں ڈرون حملہ۔ ہوتا کیا ہے زہر کھانے، چبانے اور منہ میں گھمانے والے اچانک سے فضا میں اس زہریلے مواد کا ڈرون حملہ کر دیتے ہیں۔ ڈرون حملہ کرنے والا تو اپنی جہالت سے لا علم ہوتا ہے، اس کو تو بس اپنی جہالت تھوکنی ہوتی ہے تو وہ اکثر بغیر دیکھے ہی چلتی گاڑی اور بائیک سے زہریلا میزائل چھوڑتا ہے جو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے آنے والوں پر چھڑکاؤ کی شکل میں جا چمٹتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا نوکری چھوڑنے کا وقت آ گیا؟Node ID: 440721
-
’اب ’دھرنا‘ فقط سیاسی اصطلاح تک محدود‘Node ID: 441451
-
’میں بھی کسی کی بیٹی ہوں‘Node ID: 441606
-
غصہ آنے کے اتنے بہانے کیوں ہوتے ہیں؟Node ID: 442126
اب زہریلا ڈرون چھوڑنے والا اپنی دانست میں تو درست طریقے سے تھوک گیا لیکن اس حملے کا نشانہ بننے والا معصوم اس حملے کے نتیجے میں اپنا حال خراب کر بیٹھتا ہے۔ اکثر اوقات تو منہ تک چھڑکاؤ ہوتا ہے لیکن اگر ڈرون حملہ بڑا ہو تو یہ منہ کے چھڑکاؤ کے ساتھ ساتھ لباس کو بھی رنگین بنا دیتا ہے اوراچانک حملے کا شکار ہونے والا بوکھلا جاتا ہے جب کہ اس بوکھلاہٹ کے دوران ہی حملہ آور فرار ہوجاتا ہے۔ بس ایک چھوٹی سے التجا و درخواست وگزارش و فریاد بحضور زہریلے ڈرون چھوڑنے والے افراد کے۔ بھائیو کوشش کیا کرو کہ چلتی بسوں، کاروں اور بائیکس سے یہ حرکت نہ کیا کرو۔
اب تم تو یہ کارنامہ انجام دے دیتے ہو لیکن شکار ہونے والا شخص مشکل میں آجاتا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ انٹرویو یا جاب پر جا رہا ہو، کسی تاریخ پر پہنچنا ہو یا تعلیمی ادارے کا قصد ہو۔
بہرحال سنو ڈرون حملہ آورو! جب زہر منہ میں گھوم گھوم کر اپنا مزہ ختم کردے اور آپ اسے پھینکنے کا ارادہ کر لو تو اپنی سواریوں کو سائیڈ پر لگا کر یہ عمل انجام دو تاکہ دل سے نکلی بددعا اور غصہ سے نکلی انواع و اقسام کی گالیوں سے بچ سکو۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں