فیض احمد فیض کو بچپن میں کرکٹ کا بہت شوق تھا اور وہ کرکٹر بننا چاہتے تھے
فیض احمد فیض کا بچپن بڑے مزے میں گزرا۔ گھر میں لہر بہر تھی۔ والد سخت گیر نہ تھے اور ماں سراپا محبت۔
مطالعے کی ’لت‘ بچپن میں لگ گئی۔ گھر کے قریب لائبریری تھی جس سے خوب استفادہ کیا۔ چھٹی ساتویں جماعت تک اردو کی بہت سی کتابیں گھول کر پی چکے تھے۔ والد کے منشی ایک روز فیض کی کسی بات سے ناخوش ہوئے تو ان کے والد سے شکایت کی کہ ان کا فرزندِ ارجمند ناول پڑھتا ہے۔
باپ کے حضور فیض کی طلبی ہوئی۔
پوچھا: ناول پڑھتے ہو؟
اس سوال کا جواب فیض نے اثبات میں دیا۔
منشی جی کی توقع کے برعکس سلطان محمد خاں نے ناراض ہونے کے بجائے بیٹے سے کہا:
’یہ بھی اچھی چیز ہے لیکن اردو ناول پڑھنے کے بجائے انگریزی ناول پڑھا کرو‘
فیض نے باپ کی بات گرہ میں باندھی۔ شہر کے قلعے میں جو لائبریری تھی اس کا رخ کیا۔ شروع میں ڈکنز، ہارڈی، رائیڈر ہیگرڈ اور کانن ڈائل کو پڑھا۔ کالج میں اور بھی بڑے ادیبوں کی تخلیقات سے متعارف ہوئے۔ ٹالسٹائی کا عظیم ناول ’وار اینڈ پیس‘ اس قدر پسند آیا کہ کئی دفعہ پڑھ ڈالا۔
گھر کی طرح سکول میں بھی علمی ماحول میسر آیا جہاں عالم فاضل مولوی میر حسن استاد تھے، علامہ اقبال بھی جن کے شاگرد رہے تھے۔ اقبال نے حکومت سے انھیں شمس العلماء کا خطاب دینے کی سفارش کی تو پوچھا گیا کہ ان صاحب کی کوئی تصنیف ہے؟ اس پر شاگردِ رشید نے جواب دیا کہ ’وہ‘ ان کی زندہ تصنیف ہیں۔
اقبال کے بعد مولوی میر حسن کی ایک قابل قدر تصنیف فیض احمد فیض کی صورت میں سامنے آئی۔
بچپن میں تحصیلِ علم کا شوق اپنی جگہ لیکن انھیں کرکٹ کھیلنے کا بھی بہت شوق تھا اور ٹیسٹ کرکٹر بننے کی تمنا ان کے دل میں تھی۔
ممتاز شاعر افتخارعارف نے ایک انٹرویو میں فیض سے پوچھا کہ زندگی میں کسی بات کا پچھتاوا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا:
’ایک پچھتاوا تو ہے کہ جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہماری ambition یہ تھی کہ ہم بڑے کرکٹر بنیں۔ ابھی تک کبھی کبھی ہم خواب میں دیکھتے ہیں کہ ہم بڑے ٹیسٹ کرکٹر ہیں اور کرکٹ میچ کھیل رہے ہیں۔ ایک تو ہم کرکٹر نہیں بن سکے، یہ بہت بڑا پچھتاوا ہے۔‘
ایک اور جگہ کہا: ’بچپن میں سوائے کرکٹ کھیلنے کے اور باقی جو لہو و لعب ہیں، جس کا ہمیں آج تک دکھ ہے، ہم اس میں شریک نہیں ہوئے۔‘
فیض کے والد باذوق اور مطالعے سے شغف رکھتے تھے۔ بیٹے کو مشاعروں میں ساتھ لے کرجاتے۔ ساتویں کلاس میں مزاحیہ نظم لکھی جو سکول میں خاصی مشہور ہوئی۔ دسویں میں انھوں نے تُک بندی شروع کر دی۔
سکاچ مشن ہائی سکول میں میر حسن جیسا عظیم استاد ملا تو کالج میں ادب پرور یوسف سلیم چشتی کے شاگرد ہوئے، جن کو ایک طرحی غزل پسند آئی تو شاعری پر توجہ دینے کی صلاح دی۔ کالج کے ایک مشاعرے میں غزل پڑھ کر فیض نے خوب داد سمیٹی۔
مرے کالج سے انٹرمیڈیٹ کے بعد فیض نے لاہور کا رخ کیا جہاں مزید تعلیم کے لیے انھیں ممتاز تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینا تھا۔
فیض کے والد کی علامہ اقبال سے دوستی تھی۔ ان کے کہنے پر عظیم شاعر نے گورنمنٹ کالج کے استاد قاضی فضل حق کے نام ایک تعارفی خط بھی دیا۔ لاہور میں قیام کے دوران فیض کی شاعرِ مشرق سے چند ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
سنہ 1931میں فیض نے کالج میں منعقدہ مشاعرے میں مہمان خصوصی علامہ اقبال کی موجودگی میں نظم ’اقبال‘ پڑھی جس پر انھیں انعام ملا اور وہ بعد ازاں کالج میگزین ’راوی‘ میں شائع ہوئی۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ یہ نوجوان آگے چل کر خود بڑا شاعر بنے گا اور اقبال کے بارے میں عمدہ نظم لکھے گا، جو اس کے پہلے مجموعہ کلام ’نقش فریادی ‘کا حصہ ہوگی۔
آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
گورنمنٹ کالج کا زمانہ فیض کے لیے بڑا یادگار تھا۔ پطرس بخاری اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم سے کسب فیض کیا۔ اورینٹل کالج میں عالمِ بے بدل مولوی محمد شفیع کے شاگرد رہے۔
فیض ابھی کالج میں تھے کہ انھیں والد کی موت کا صدمہ سہنا پڑا جس کے بعد تنگی ترشی سے زندگی گزارنی پڑی لیکن یہ وقت بھی انھوں نے صبر سے کاٹ لیا۔
سنہ 1933 میں گورنمنٹ کالج سے ایم اے انگریزی اور 1934 میں اورینٹل کالج سے ایم اے عربی کیا۔
لاہور میں اس زمانے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے فیض نے مرزا ظفرالحسن کو بتایا:
’مجھے یاد ہے ہم مستی دروازے کے اندر رہتے تھے۔ ہمارا گھر بالائی سطح پر تھا۔ نیچے بد رو بہتی تھی۔ چھوٹا سا ایک چمن تھا۔ چار طرف باغات تھے۔ ایک رات چاند نکلا ہوا تھا۔ چاندنی بدرو اور اردگرد کے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ چاندنی اور سائے یہ سب مل کر کچھ عجیب پراسرار منظر بن گئے تھے۔ چاند کی عنایت سے منظر کی بد وضعی چھپ گئی تھی اور کچھ عجیب ہی قسم کا حسن پیدا ہو گیا تھا، جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ایک آدھ نظم میں منظر کشی کی ہے جب شہر کی گلیوں، محلوں اور کٹڑیوں میں کبھی دوپہر کے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کا روپ آ جاتا ہے جیسے معلوم ہو کوئی پرستان ہے۔ نیم شب، چاند، خود فراموشی بام و در خامشی کے بوجھ سے چور وغیرہ اسی زمانے سے متعلق ہیں۔‘
سنہ 1935 میں وہ ایم اے او کالج امرتسر میں لیکچرار بن کر چلے گئے۔ یہ زمانہ ان کی زندگی میں اس لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں وہ سوشلزم اور مارکسزم سے متعارف اور متاثر ہوئے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا حصہ بنے۔ اس راہ پر آنے کا قصہ یوں ہے کہ کالج کے ایک استاد صاحب زادہ محمود الظفر نے کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھنے کو دیا، جسے ایک نہیں تین دفعہ انھوں نے پڑھا تو خیالات کی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو کے مطالعے نے فیض کو جس طریقے سے متاثر کیا اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’انسان اور فطرت، فرد اور معاشرہ، معاشرہ اور طبقات، طبقے اور ذرائع پیداوار کی تقسیم، ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتے، پیداواری رشتے اور معاشرے کا ارتقا، انسانوں کی دنیا کے پیچ در پیچ اور تہہ در تہہ رشتے ناتے، قدریں، عقیدے، فکر وعمل وغیرہ کے بارے میں یوں محسوس ہوا کہ کسی نے اس پورے خزینہ اسرار کی کنجی ہاتھ میں تھما دی ہے۔ یوں سوشلزم اور مارکسزم سے اپنی دلچسپی کی ابتدا ہوئی۔ پھر لینن کی کتابیں پڑھیں اور یوں لینن کے اکتوبر انقلاب اور اس کی انقلابی سرزمین سے واقفیت کی شدت سے طلب ہوئی۔‘
امرتسر میں فیض کے شاگردوں میں سعادت حسن منٹو بھی شامل تھے جو کلاس میں تو کم ہی درشن دیتے لیکن استاد کا بڑا احترام کرتے۔ ادب پر بحث کے لیے فیض کی رہائش گاہ پر بھی ان کا جانا رہتا۔ منٹو کے انتقال پر اہلیہ کے نام خط میں فیض نے منٹو کا استاد ہونے پر فخر کا اظہار کیا۔
امرتسر میں فیض سے اپنے مراسم کے بارے میں منٹو نے ’لاﺅڈ سپیکر‘ میں لکھا ہے:
’میں ان دنوں ایم اے او کالج امرتسر میں پڑھتا تھا۔ .... اسی کالج میں فیض احمد فیض جو بڑے افیمی قسم کے آدمی تھے، پڑھایا کرتے تھے۔ ان سے میرے بڑے اچھے مراسم تھے۔
ایک ہفتے کی شام کو انھوں نے مجھ سے کہا کہ وہ ڈیرہ دون جا رہے ہیں۔ چند چیزیں انھوں نے مجھے بتائیں کہ میں خرید کر لے آﺅں۔ میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد ہر ہفتے ان کے حکم کی تعمیل کرنا میرا معمول ہوگیا۔
وہ دراصل ڈیرہ دون میں ڈاکٹر رشید جہاں سے ملنے جاتے تھے۔ ان سے غالباً ان کو عشق کی قسم کا لگاﺅ تھا۔ معلوم نہیں اس لگاﺅ کا کیا حشر ہوا مگر فیض صاحب نے ان دنوں اپنی افیمگی کے باوجود بڑی خوبصورت غزلیں لکھیں۔‘
سنہ 1939میں فیض احمد فیض ہیلی کالج لاہور سے متعلق ہوگئے۔ ان کے شاگردوں میں اندر کمار گجرال بھی شامل تھے جو بعد ازاں ہندوستان کے وزیراعظم بنے۔
سنہ 1941 کا برس فیض کی زندگی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سال ان کی شادی ایلس سے ہوئی۔ اسی برس ان کی پہلی کتاب ’نقش فریادی‘ شائع ہوئی جس میں سے نمونے کے طور پر ان کی نظم ’بول....‘ پڑھنے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بڑی شاعری اپنے زمانے کے لیے نہیں ہر زمانے کے لیے ہوتی ہے۔
بول....
بول، کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول، زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول، کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے، سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!
1941 کے آخر میں وہ دہلی چلے گئے اور برٹش فوج کے محکمہ نشر واشاعت سے جڑ گئے۔ یہ وابستگی جنگ کے خاتمے تک جاری رہی۔
سنہ 1947 میں فیض احمد فیض لاہور سے نکلنے والے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر بنے۔ فیض کی ادارت میں جلد ہی پاکستان ٹائمز نے اپنا نام اور مقام بنا لیا۔
سنہ 1951میں فیض راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ چار برس پس دیوار زنداں رہے۔ ذاتی اعتبار سے یہ دور تلخ سہی لیکن تخلیقی اعتبار سے بارآور ثابت ہوا۔
٭ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے، اشکوں سے منور جاتی ہے
٭ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض، گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
سنہ 1958میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگایا تو فیض ایک دفعہ پھرگرفتار ہوئے اور چھ ماہ جیل میں رہے۔
سنہ 1962میں سوویت یونین کی حکومت نے انھیں لینن امن پرائز دیا جس سے شاعر کی حیثیت سے ان کی شہرت اور تکریم میں اور بھی اضافہ ہوا۔
سنہ1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ اس دور میں فیض ثقافتی امور کے مشیر مقرر ہوئے۔ ایفرو ایشیائی ادبی انجمن کے پلیٹ فارم سے بھی سرگرم رہے۔ سنہ 1977میں ضیاءالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پاکستان ایک دفعہ پھر آمریت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔
مارشل لاء سے بے چینی اور گھٹن کی جس فضا نے جنم لیا، اس میں خلق خدا کے لیے سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ سنہ 1978میں فیض ملک سے باہر چلے گئے۔ ایفرو ایشائی ادبی انجمن کے رسالے ’لوٹس‘ کے ایڈیٹر بن کر بیروت مقیم ہوئے۔ اسی زمانے میں ان کا ممتاز فلسطینی لیڈر یاسر عرفات سے تعلق استوار ہوا۔ فیض نے ’مرے دل مرے مسافر‘ کو انھی کے نام معنون کیا۔ بیروت میں قیام کے دوران لندن اور ماسکو ان کا آنا جانا لگا رہا۔
سنہ1983میں فیض اس ارادے سے کہ وہ زندگی کے باقی ایام اپنے وطن میں گزاریں گے، لاہور آ گئے اور اپنوں کے درمیان زیست کرنے لگے۔ خوشی کے ان لمحوں کی مدت زیادہ نہ تھی۔ آخری دنوں میں وہ اپنے آبائی گاﺅں کالا قادر گئے جہاں سے لاہور واپسی میں ان کی طبیعت بگڑی اور انھیں ہسپتال داخل کرانا پڑا، جہاں انھوں نے 20 نومبر 1984 کو آخری سانس لی۔