پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف کے (فارن فنڈنگ) مبینہ طور پر بیرون ملک سے حاصل ہونے والی رقم کا معاملہ ایک بار پھر زیر بحث ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے اس مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی درخواست کی ہے۔
ادھر الیکشن کمیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو 26 نومبر کو سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی جانچ پڑتال کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے ہدایت کی گئی ہے۔
فارن فنڈنگ کیس ہے کیا؟
2014 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے پارٹی کی اندرونی مالی بے ظابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے فنڈز موصول ہوئے اور مبینہ طور پر دو آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ملین ڈالرز ہنڈی کے ذریعے پارٹی کے بینک اکاونٹس میں منتقل کیے گئے۔
مزید پڑھیں
-
سیاست اور دو ٹکے کی نوکری!Node ID: 439676
-
کیا مسلم لیگ ن کے لیے برف پگھل رہی ہے؟Node ID: 444231
-
’پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کی روزانہ سماعت کا مطالبہ‘Node ID: 444296
-
’جیل نعمت بھی عذاب بھی‘Node ID: 444386
اس درخواست میں انہوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف نے بیرون ملک سے فنڈز اکٹھا کرنے والے بینک اکاونٹس کو بھی الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھا۔
فارن فنڈنگ کیس: کب کیا ہوا؟
14نومبر 2014 کو اکبر ایس بابر نے پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں اور غیر قانونی و بیرونی فنڈنگ کے حوالے سے درخواست الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کرنے کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا۔ الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے فنڈز کی چھان بین کے بارے میں اعتراض مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن پارٹی فنڈز چھان بین کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
26 نومبر 2015 کو تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار اور اکبر ایس بابر کے بطور مدعی بننے پر اعتراضات کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی۔
ہائی کورٹ میں یہ معاملہ تقریباً ڈیڑھ سال جاری رہا اور 17 فروری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کے خلاف درخواست مسترد کردی۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ڈائریکٹر جنرل لا ونگ اور الیکشن کمیشن کے آڈیٹر جنرل کے افسران پر مشمل ایک کمیٹی قائم کی ۔
تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کمیٹی کے خلاف بھی درخواست دائر کر رکھی ہے، جو کہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
فارن فنڈنگ پر قانون کیا کہتا ہے ؟
سیاسی جماعتوں کو پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے آرٹیکل 13 کے تحت مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا مجاز ہوتا ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔
پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے شق (15) کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا ڈیکلئیریشن جاری کر سکتی ہے جو کہ غیر ملکی فنڈز کے ذریعے قائم کی گئی ہو یا اس کے قیام کا مقصد پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف ہو یا دہشت گردی میں ملوث ہو۔
قانون کے مطابق ڈیکلئیریشن جاری ہونے کے 15 روز کے اندر معاملہ سپریم کورٹ بھیجا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں فیصلہ برقرار رکھنے کی صورت میں پارٹی تحلیل قرار دی جاتی ہے۔
قانون کے مطابق سیاسی جماعت تحلیل ہونے کی صورت میں اس جماعت کے تمام صوبائی اور وفاقی ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت بھی منسوخ ہو جائے گی۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک فنڈنگ کے ساتھ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ اکاؤنٹس ظاہر نہ کرنے کا ہے۔ ’اگر کوئی چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے تو یہ بددیانتی ہے اور اسکے نتائج قانون کے مطابق آسکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر تو واضح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی چیز پوشیدہ رکھی گئی ہے تو آرٹیکل 61 اور 62 کے تحت بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔
’پارٹی کے فنڈز کے ذرائع ظاہر نہ کرنے پر آرٹیکل 61 اور 62 کوئی بھی اتھارٹی استعمال کر سکتی ہے چاہے وہ الیکشن کمیشن ہو یا سپریم کورٹ۔‘
سینئیر قانون دان اکرم شیخ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 کے تحت کوئی غیر ملکی شہری یا غیر ملکی کمپنی کا سیاسی جماعت کو فنڈز فراہم کرنا ممنوعہ ہے۔’عمران خان نے فنڈز کے حوالے سے جو سرٹیفیکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کیا ہے اس کی بنیاد پر بھی ان کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس مقدمہ میں بیرون ملک سے حاصل ہونے والے فنڈز ضبط نہیں ہو سکتے کیونکہ غیر ملکی شہریوں یا غیر ملکی کمپنیز سے فنڈز حاصل کرنے کے حوالے سے قانون واضح ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اگر وفاقی حکومت ڈیکلئیریشن جاری نہیں کرتی تو یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور سپریم کورٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ جماعت قانون کے تابع ہے یا نہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں