Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ توسیع

پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی مشروط توسیع کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ آرمی چیف کی تعیناتی، مدت ملازمت، دوبارہ تقرری یا توسیع سمیت دیگر امور پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی کرے۔
حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ نئے قانون کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہی توسیع دے یا کسی نئے جنرل کو آرمی چیف لگائے۔
جمعرات کو عدالت نے دوپہر ایک بجے مختصر حکم نامہ جاری کرنے کا کہا تھا تاہم ساڑھے تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد تین بج کر 33 منٹ پر دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا۔
چیف جسٹس نے تاخیر پر معذرت کی اور اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وہ کیا کرکے لائے ہیں؟
اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم کی روشنی میں ترمیم شدہ سمری پیش کی۔ عدالت نے سمری کا جائزہ لینے کے بعد اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس حوالے سے قانون بنانے کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’چھ ماہ میں قانون پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظوری لے لیں گے۔‘
اس موقعے پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ پٹیشنر کدھر ہے؟ وکلا نے جواب دیا کہ وہ کھانا کھانے گئے ہیں۔ جواب سنتے ہی جج صاحبان سمیت سبھی ہنسنے لگے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں کھانا کھا لینے دیں ہم فیصلہ سناتے ہیں، جو مختصر ہوگا اور تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
عدالت نے مختصر حکم نامے میں کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع سپریم کورٹ میں چیلنج کی گئی۔ عدالت نے تین روز کی سماعت میں آرمی چیف کی تقرری، ریٹائرمنٹ اور دورباہ تقرری یا توسیع کے معاملے کو آئین و قانون کی روشنی میں دیکھا۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ ’عدالت نے آئین کے آرٹیکل 243، پاکستان آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کا جائزہ لیا۔ آج حکومت نے آرٹیکل 243 بی فور کے تحت نئی سمری اور وزیر اعظم کی سفارش پر صدر کی جانب سے جاری کیا گیا نیا نوٹیفکیشن پیش کیا۔ جس میں 28 نومبر سے آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تین روز کی سماعت کے دوران آئین و قانون میں سے آرمی چیف کی دوبارہ تقرری اور توسیع سے متعلق کوئی بھی قانون دکھانے سے متعلق ناکام رہے ہیں جبکہ آرٹیکل 243 کہتا ہے کہ صدر مملکت قانون کی روشنی میں تقرری کریں گے اور اس میں بھی دوبارہ تقرری یا توسیع کا ذکر موجود نہیں ہے۔‘

عدالت نے جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات بھی طلب کی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے چھ ماہ میں اس حوالے سے قانون سازی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ آرمی چیف کے عہدے کی اہمیت، پاک فوج کی کمانڈ، انتظامی امور اور جی ایچ کیو کا سربراہ ہونے کے معاملات کو سامنے رکھ رہے ہیں۔ عدالت نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج رہے ہیں۔‘
قبل ازیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر تیسرے روز سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکومت سے یقین دہانیاں طلب کی تھیں جس کے بعد شارٹ آرڈر جاری کرنے کا کہا تھا۔
جمعرات کو سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ ’اگر حکومت چار یقین دہانیاں کرا دے تو اس صورت میں آج ہی شارٹ آرڈر یا مختصر حکم نامہ جاری کر دیا جائے گا۔‘
ان یقین دہانیوں میں توسیع کے نوٹیفیکشن سے تین سال کی مدت کو نکالنا، تنخواہوں اور مراعات کا تذکرہ، چھ ماہ کے اندر اندر اس مسئلے پر جامع قانون سازی اور یہ یقینی بنانا کہ یہ سب کچھ عدالت کے حکم پر نہیں کیا جا رہا، شامل تھا۔
پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اس اہم مقدمے کی سماعت کے تیسرے دن سماعت کے آغاز میں ہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کو دی جانے والی توسیع اور جنرل (ریٹائرڈ) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات طلب کی تھیں۔

عدالت نے کہا کہ توسیع کے معاملے پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی کی جائے (فوٹو: اے ایف پی)

بدھ کی رات کو طویل مشاورت کے بعد حکومت نے ایک نیا نوٹیفیکشن تیار کیا تھا اور اٹارنی جنرل انور منصور نے جمعرات کو عدالت کو بتایا کہ یہ نوٹیفیکیشن آرٹیکل 243 کے تحت جاری ہوا ہے۔
جمعرات کو سماعت شروع ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا ’ہمیں مطمئن کریں کہ اب جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست ہے۔ ادارے اپنا بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھوں پر نہ رکھیں۔‘
عدالت نے کہا کہ ’یہ نوٹیفیکیشن ایسا ہی ہے جیسے ایف آئی آر میں معزز جج کے نام کا ذکر ہو اس میں ہماری ایڈوائزری کا ذکر نہ کریں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ’243 کے تحت تعیناتی کی مدت کا تعین نہیں ہے، آپ نے آرمی چیف کا نوٹیفیکیشن 28 نومبر کو جاری کیا ابھی تو یہ عہدہ خالی بھی نہیں ہوا، تین سال کی تقرری کا ذکر کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘
اس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کوئی معقول وقت تو دینا ہو گا۔

چیف جسٹس نے کہا ’ہمیں مطمئن کریں کہ اب جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ’پہلے وہ بھی نہیں تھا، لگتا ہے آپ سمجھ دار ہوتے جا رہے ہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون میں خلا رہ گیا ہے، ماضی میں اس طرح کی پریکٹسز ہوتی رہی ہیں لیکن اپنی سمجھ کے مطابق سب کو چلاتے رہے، اب یہ معاملہ پہلی دفعہ اٹھایا گیا ہے اس کی مین سٹریمنگ ضروری ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ’آج سروسز ایکٹ کی کتاب دیکھی تو ایجنٹ قرار دیا گیا، کہا جا رہا ہے یہ ففتھ جنریشن وار کا حصہ ہے، پہلی بار ففتھ جنریشن وار کا ذکر سنا تو پتا کروایا کہ یہ ہے کیا۔ اس کتاب کو اتنا چھپا کر رکھا گیا کہ کوئی دیکھ بھی نہیں سکتا، ہم سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا ’ہماری اس بحث کا انڈیا میں بہت فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔

شیئر: