حینف راہی اس سے قبل بھی کئی درخواستیں عدالتوں میں دائر کر چکے ہیں جن کو عدالت غیر ضروری مقدمے بازی کا عنوان دیتی ہے. فوٹو اردو نیوز
آرمی چیف کی توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دینے والے ریاض حنیف راہی وہ شخص تھے جن کی منگل کو سپریم کورٹ میں ہر شخص کو تلاش تھی۔
حتیٰ کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی منگل کو سماعت شروع ہوتے ہی سب سے پہلے پوچھا کہ گمشدہ درخواست گزار کہاں رہ گئے ہیں کچھ پتا چلا۔
عدالت میں راہی صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ وہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ حالات بدل گئے ہیں مگر چیف جسٹس نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔
سماعت کے بعد اردو نیوز نے بھی درخواست گزار سے اس معاملے پر بات چیت کی درخواست کی مگر وہ زیادہ گفتگو پر آمادہ نہیں تھے۔
ان سے کہا گیا کہ انہوں نے درخواست دی کیوں تھی تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے معاملات سامنے رکھ دیے ہیں اب عدالت وہی کام کر رہی ہے تو وہ اب ان کا کام نہیں رہا۔
تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ درخواست واپس کیوں لی تو ان کا کہنا تھا کہ اس پر وہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دباؤ کا شکار ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں خوش ہوں آپ پریشان نہ ہوں۔‘
تاہم انہوں نے مزید بات کرنے سے معذرت کر لی۔
یاد رہے کہ ریاض حنیف راہی نے پیر کو جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست دائر کی تھی اور اس کو اگلے ہی دن منگل کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔
حینف راہی اس سے قبل بھی کئی درخواستیں عدالتوں میں دائر کر چکے ہیں جن کو عدالت غیر ضروری مقدمے بازی کا عنوان دیتی ہے۔
ان کے اس رویے پر عدالتوں نے نہ صرف اظہار ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان پر جرمانے بھی ہو چکے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے2014 میں ریاض راہی پر اسی طرح کے ایک مقدمے پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں انہوں نے جسٹس فائز عیسی کی بلوچستان ہائی کورٹ میں براہ راست چیف جسٹس تعیناتی کو چیلنج کیا تھا۔
تاہم درخواست کی پیروی کرنے نہیں آئے۔ بالآخر جب عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں گھر پر پولیس بھیج کر بلایا گیا تھا جس پر جسٹس ثاقب نثار نے انہیں کہا تھا کہ آپ درخواستیں داخل کرتے ہیں اور آتے نہیں تو ایسا تو ہو گا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں