’چھوٹے ہوتے سے ہی مسئلے شروع ہوجاتے ہیں،طرح طرح کے سوال کیے جاتے ہیں جن کے لیے آپ ابھی تیار بھی نہیں ہوتے اور سب سے بڑا مسئلہ یہ کہہمیں ہماری اصل شناخت کے ساتھ قبول نہیں کیا جاتا۔‘
یہ کہنا ہے جنّت علی کا جو ایک ایسی خواجہ سرا ہیں جو دنیا بھر میں پاکستان کا ’سافٹ امیج‘ بن کر ابھری ہیں۔
لاہور کی رہائشی جنّت علی ٹرانسجینڈر ایکٹوسٹ ہیں اور وہ پاکستان میں خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے لیے ٹریک ٹی نامی ادارے کے ساتھ بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر کام کررہی ہیں۔
ماضی کی تلخ یادیں دہراتے ہوئے جنّت نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سوسائٹی تو بعد میں لیکن ایک ٹرانسجینڈر کے اپنے گھر والے ہی اس کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ بچپن سے ہی ہم پرروک ٹوک شروع ہوجاتی ہے کہ ایسے مت چلو، ہاتھ ایسے کیوں ہلا رہے ہو، یہ والا کلر مت پہنو یہ تو لڑکیوں کے لیے ہے۔‘
فیملی والے یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے بچے سچ کے ساتھ جینا چاہ رہے ہیں، وہ صرف لوگوں کا سوچتے ہیں۔
یوں تو خواجہ سراؤں کو ان کے گھر والے ہی قبول نہیں کرتے لیکن جنّت علی لاہور میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں۔
جنّت کا شمار پاکستان کے چند پڑھے لکھے خواجہ سراؤں میں ہوتا ہے، انہوں نے یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب سے ایم بی اے پروگرام میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا ہے۔
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواجہ سرا یا تو بھیک مانگ سکتے ہیں یا شادی بیاہ پر ناچ اور گا سکتے ہیں لیکن جنّت علی نے لوگوں کے اس تصور کو غلط ثابت کیا۔ آج وہ تمام ٹرانسجینڈرز کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں مگر کامیابی کا یہ سفر ان کے لیے اتنا آسان نہیں تھا۔
جنّت نے بتایا کہ ’میں جب بھی خواجہ سراؤں کو دیکھتی تھی تو بھیک مانگتے دیکھتی تھی، میں چاہتی تھی کہ ایک رول ماڈل بن کر سامنے آؤں اور خواجہ سراؤں کا مختلف امیج دنیا کے سامنے لاؤں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جنّت نے بتایا کہ ’آپ اندازہ نہیں کرسکتے جب میں پڑھ رہی تھی تو مجھے اپنے احساسات کو کتنا چھپانا پڑا اور مجھے ڈر لگتا تھا کہ اگر میری حقیقت پتا چل گئی تو کیا مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے گا؟ اس لیے میں اپنی شناخت کو چھپا کر رکھتی، اور ایسے کپڑے پہنتی تھی جو لڑکا لڑکی دونوں کو سوٹ کرتے ہوں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پہلے تو گھروالوں اور لوگوں کی وجہ سے مجھے اپنا اصل چھپانا پڑا لیکن پھر ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ میں جو ہوں ، جیسی ہوں مجھے ویسا ہی رہنا ہے، میں جھوٹ کے سہارے پوری زندگی نہیں گزار سکتی تھی۔ پہلے تو گھر میں ہی میری مخالفت کی گئی، ایک بھائی کا رشتہ طے ہوا تو اس نے کہا کہ جس گھر میں لوگوں کو پتا ہو کہ ایک ٹرانسجینڈر بھی ہے تو کوئی اس گھر میں اپنی بیٹی کیوں دے گا؟ لیکن میں چونکہ تعلیم یافتہ تھی اس لیے میں نے انہیں قائل کرلیا۔‘
’ایک ٹرانسجینڈر کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے‘
جنّت علی خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق بل پاس کرانے میں بھی پیش پیش رہیں۔ یاد رہے کہ گذشتہ سال مارچ کے اوائل میں پاکستان میں پہلی بار خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق بل پاس ہوا تھا۔
اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ’میں نے دو تین خواب دیکھے تھے جو بہت کم وقت میں پورے ہوگئے ان میں سے ایک ٹرانسجینڈرز رائٹس لا تھا جس پر میں نے اور میری ٹیم نے کام کیا۔ ہم ہمیشہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں یہ پہلی بار تھا کہ ہم سڑکوں پر نکل کر اپنی خوشی منا رہے تھے اور کسی نے بھی ہوٹنگ نہیں کی، ہم نے لوگوں کو دکھایا کہ ایک ٹرانسجینڈر کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے۔‘
جنّت سمجھتی ہیں کہ اب پاکستان میں بھی خواجہ سراؤں سے متعلق روایتی سوچ بدل رہی ہے۔ ’ابھی ٹرانسجینڈرز کو کوک سٹوڈیو میں گاتے دیکھا گیا، نغمہ جی اور لکی جی دونوں کو میں نے ہی متعارف کرایا تھا اور آج وہ اسی پلیٹ فارم پر گا رہی ہیں جہاں عابدہ پروین، عاطف اسلم اور دیگر بڑے گلوکار گاتے ہیں۔‘
جنّت علی کا کہنا ہے کہ ’اپنی جگہ خود بنانا پڑتی ہےخصوصاً جب آپ ایک ٹرانسجینڈر ہوں تو یہ اور بھی چیلنجنگ ہوجاتا ہے۔ چھوٹی سی مثال ہے کہ جب بھی بل جمع کرانے جاتے ہیں مردوں اور عورتوں کی ہی لائن ہوتی ہے تو میں اپنی لائن خود بناتی ہوں اور کہتی ہوں کہ یہ ٹرانسجینڈرز کی لائن ہے۔‘
جنّت ٹرانسجینڈر ایکٹوسٹ کے ساتھ ساتھ ایک کتھک پرفارمر بھی ہیں، وہ 20 سے زائد ممالک میں ورکشاپس، سیمینارز اور مختلف تربیتی سیشنز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔
ان کی خواہش ہے کہ وہ نا صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹرانسجینڈر بنیں۔