تھر میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ زبان اٹھنا بیٹھنا، رہن سہن، کھانا پینا اور ذریعہ معاش بھی۔ اس کی وجہ حکومتی اقدامات سے زیادہ مسلسل قحط اور کمیونیکیشن کے ذرائع ہیں۔ قحط کی وجہ لوگوں نے مجبوراً اپنے طور پر روز گار کے متبادل ذرائع تلاش کیے۔ روزگار کی تلاش میں انہیں صوبے کے دوسرے علاقوں اور شہروں میں جانا پڑا۔ اب نئی نسل کے لوگ بقول چھاچھرو کے گوتم راٹھی کے پرانے لوگوں کی زبان ہی نہیں سمجھ پارہے ہیں۔
چھاچھرو کےتاجروں کا کہنا ہے کہ اب لوگوں کو کہیں نہ کہیں سے پیسہ مل جاتا ہے۔ دکاندار سے یا پھر بینک یا این جی او سے قرضہ مل جاتا ہے۔ مشرف دور میں این جی اوز نے مائکرو فنانس کے تحت قرضے دیے، لوگوں کے ہاتھوں میں نقد پیسہ آیا اور پھراس نقد پیسے کی عادت پڑی۔ لہٰذا تھر کی معیشت مارکیٹ معیشت سے منسلک ہو گئی۔ پہلے قرضہ ملنا اتنا آسان نہ تھا۔ تب کاشتکار کے مقرر دکاندار تھے، وہ اپنی اجناس اسی کو دیتا تھا اور اسی سے کپڑا یا دوسرا سودا خرید کرتا تھا۔
آمدنی کے ذرائع بھی تبدیل ہوئے ہیں۔ تھر کی معیشت 'باہر سے کمانے والوں' پر چل رہی ہے۔ ہر خاندان کا ایک فرد یا تو کسی سرکاری ملازمت میں ہے یا بڑے شہروں میں محنت مزداری یا کوئی کام کرتا ہے۔ چھاچھرو اور ڈاہلی تحصیلوں میں بچوں کی مشقت بڑھی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 20 ہزار سے زائد بچے حیدرآباد اور کراچی میں بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں جہاں سے پانچ ہزار سے 10 ہزار روپے تک ماہانہ گھروالوں کو بھیجتے ہیں۔ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام نے بھی مارکیٹ کی معیشت میں مدد دی۔
مزید پڑھیں
-
دریائے سندھ سے جڑی ماہی گیروں کی زندگیNode ID: 428951
-
تھرپارکر: تین دن میں نو خودکشیاں، وجہ کیا ہے؟Node ID: 441526
-
تھر: ماروی اور فطری خوبصورتیNode ID: 445881