لیبیا کے تانے بانے بکھرے ہوئے ہیں۔ دارالحکومت طرابلس میں تشویش سے دوچار وفاقی حکومت کے سربراہ نے تسلیم کرلیا کہ دارالحکومت حریفوں کے قبضے میں جاسکتا ہے۔
ترک حکومت ایسے عالم میں کیا کرسکتی ہے؟
ترک حکومت نے لیبیا کی وفاقی حکومت پر ایک معاہدہ مسلط کر دیا ہے۔ اس کے مطابق بحیرہ روم کے وسط میں ترکی کی سمندری حدود تسلیم کرلی گئی ہے۔
طرابلس کی حکومت بحیرہ روم کے وسط میں واقع سمندری حدود کا معاہدہ ترکی کے ساتھ کیسے کرسکتی ہے ۔ لیبیا کے 20 فیصد سے بھی کم خشک علاقے اس کے کنٹرول میں ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔

ترکی کے ساتھ سمندری حدود کے معاہدے پر دستخط نے طرابلس میں موجود وفاقی حکومت کے لیے یورپی ممالک کی عداوت میں اضافہ کردیا۔ یہ منظر نامہ دیکھ کر ترک صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ وہ لیبیا کی وفاقی حکومت کی مدد کے لیے ترک افواج بھیجیں گے لیکن کسی کو رجب طیب اردگان کے وعدوں پر اعتبار نہیں۔
حد تویہ ہے کہ خود ترکی کے وزیر خارجہ نے یہ بیان دے دیا کہ ترک فوج لیبیا نہیں بھیج سکتے کیونکہ فوجی مداخلت پر بین الاقوامی پابندی لگی ہوئی ہے۔ ہم اسلحہ بھی نہیں بھیج سکتے البتہ وفاقی حکومت کے فوجیوں کی ٹریننگ کے لیے ا ہلکار بھیج سکتے ہیں۔
غالب گمان یہ ہے کہ رجب طیب اردگان لیبیا کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ وہی کچھ دہرائیں گے جو اس سے قبل وہ شامی اتحادیوں کے ساتھ کرچکے ہیں۔ رجب طیب اردگان کے سامنے دوسرا راستہ یہ ہوگا کہ وہ روسیوں کے ساتھ مل کرلیبیا کی وفاقی حکومت کے ساتھ وہی منظر نامہ دہرائیں جو شامیوں کے ساتھ کرچکے ہیں۔ وفاقی حکومت کے رہنماﺅں کو جنگ بند کرنے پر مجبور کرکے ان کی طرف سے مذاکرات کے لیے خود آگے آجائیں۔ شام میں وہ یہی کرچکے ہیں۔

لیبیا میں صورتحال سنگین ہے۔ لیبیا کے برسر پیکار فریقوں کے درمیان جنگ ہورہی تھی اور ہورہی ہے۔ ان میں سے ایک گروپ قومی فوج اور پارلیمنٹ کا نمائندہ ہے۔ اس کا کنٹرول ملک کے بڑے رقبے پر ہے۔ دوسرا گروپ وفاقی حکومت کا ہے۔ یہ اس وقت طرابلس تک محدود ہے۔
جنگ صرف اہل لیبیا کے درمیان نہیں ہورہی ہے بلکہ ان کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی فریق بھی جنگ میں مصروف ہیں۔ آخر میں روسی بھی شامل ہو گئے ہیں۔
ممکن ہے کہ روسی مداخلت شمالی افریقہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا باعث بن جائے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران روسی جنرل حفتر کی زیرقیادت فاتح گروپ کے ساتھ صف بستہ ہوگئے ہیں۔
جنرل حفتر، روسیوں کے تعاون سے وفاق کی فضائیہ کو تیزی سے تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان میں ترک ڈرونز شامل ہیں۔ انہوں نے امریکیوں کے ڈرونز بھی گرائے ہیں۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو وہ لچکدار موقف اختیار کیے ہو ئے ہے۔ شاید اسے فتح یاب فریق کا انتظار ہے۔ امریکہ لیبیا کے دونوں فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔
