Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

منبرِ رسولﷺ ، جنت کے باغ پر قائم

 ’’ اللہ تعالیٰ جس طرح تمام خلائق کو زندہ کرے گا اسی طرح میرے منبر کو بھی اس کے حال پر دوبارہ قائم کرے گا، اسے میرے حوض کے قریب رکھا جائیگا‘‘
 
 
مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر اوردینی مراکز ہیں۔ یہاں مسلمان رب العالمین کی عبادت و بندگی کیلئے شب و روز میں 5وقت جمع ہوتے ہیں اور اس کی خلاقیت و رزاقیت کا اقرار کرتے ہیں۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ کے بندوںکو دینی احکام و مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے اس لئے ان میں منبر تعمیر کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ تمام نمازیوں تک ائمہ کرام اور خطباء حضرات کی آوازیں پہنچائی جاسکیں۔ جامع مسجدوں میں منبر بنانے کی افادیت اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے اسلئے کہ وہاں نماز جمعہ ادا کرنے کیلئے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اگر ان میںمنبر تعمیر نہ کئے جائیں تو نمازیوں کو خاص طور پر مساجد کے آخری حصوں میں موجود لوگوں کو آوازیں سننے میں کافی دشواری پیش آئیگی ۔ دنیا میں بعض مساجد وسیع و عریض رقبے پرقائم ہیں، ان میں مسجد نبوی شریف، مصر میں الازہر کی جامع مسجد وجامع مسجد عمرو بن العاص اور قاہرہ میں جامع مسجد احمد بن طولون شامل ہیں۔ 
 
اسلام میں سب سے پہلے مسجد نبوی شریف میں منبر تعمیر کیا گیا ۔ روایت میں آتا ہے کہ مسجد نبوی شریف کی چھت کھجورکے تنوں سے بنائی گئی تھی اور منبر بھی اسی درخت کے تنوں سے بنایا گیا تھا ۔ حضور اکرم  اس سے ٹیک لگا کر خطبۂ جمعہ دیا کرتے تھے ۔ ایک روز آپ نے ایک انصاری صحابیہ ؓ سے فرمایا کہ تمہارا غلام بڑھئی ہے، اس سے تم کہو کہ وہ میرے لئے ایک منبر بنا دے تاکہ میں اس پر چڑھ کر خطبہ اور وعظ و نصیحت کرسکوں۔ انصاری صحابیہ ؓ نے یہ سن کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول !آپ() کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں اپنے غلام کو منبر شریف بنانے کی ضرور تاکید کرونگی چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا،انہوں نے اپنے غلام کو نبی کریم کیلئے منبر بنانے کا حکم دیا ۔ صحابیہؓ نے 3سیڑھیوں کا منبر تیار کراکے خدمت اقدس میں پیش کردیا۔ آپ نے اسے مخصوص جگہ پر رکھنے کا حکم فرمایا۔ یہ منبر عمدہ قسم کی لکڑی سے بنایا گیا تھا ۔جب آپ نے کھجور کے تنے کو چھوڑ کر نئے منبر پر چڑھ کر خطبۂ جمعہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو وہ تنا اس طرح دھاڑیں مارکر رونے لگا جس طرح اونٹی اپنے بچے کے لاپتہ ہوجانے پر چیخیں مارمار کر روتی ہے۔
 
حضرت سعید بن المسیبؓ، حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے تاہم جب لکڑی کا منبر تعمیر ہوگیا تو آپ نے کھجور کے تنے سے ٹیک لگانا تر ک فرمادیااور منبر پر چڑھ کر خطبہ فرمانے لگے تو کھجور کا تنا فرطِ غم میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا ،ہم لوگوں نے اس کے رونے کی آوازیں سنیں، جب آپ نے اس پر اپنا دست مبارک رکھا توہ خاموش ہوگیا اور آپ نے فرمایا کہ اگر ہم اسے خاموش نہ کرتے تو قیامت تک وہ اسی طرح روتا رہتا۔
 
مسجد نبوی شریف کے منبر کی متعدد احادیث مبارکہ میں فضائل و مناقب وارد ہوئے ہیں۔ حضرت امام بخاریؒ اور حضرت امام مسلم ؒ نے اپنی صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’میرے گھر اور میرے منبر کے مابین جو حصہ ہے وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔‘‘
 
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ جس طرح تمام خلائق کو روزِ قیامت زندہ کریں گے اسی طرح میرے منبر کو بھی اس کے حال پر دوبارہ قائم کرینگے اور اسے میرے حوض کے قریب رکھا جائیگا۔‘‘ 
حضرت انس ؓ  فرماتے ہیں کہ نبی کریم کا ارشاد ہے کہ’’ میرا منبر جنت کے باغ پر ہے( یا آپ نے فرمایا کہ جنت کے دروازے پر ہے)۔‘‘( سنن احمد ، ابو داؤد، ابن ماجہ) ۔
 
ابن سعد کا کہنا ہے کہ مسجد نبوی شریف میں سب سے پہلا منبر 7ھ میں بنایا گیا تھا۔ ابن نجار کا کہنا ہے کہ 8ھ میں سب سے پہلے مسجد نبوی شریف میں منبر بنایا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں 2زینے تھے، بعض محدثین کا کہنا ہے کہ اس میں 3زینے تھے۔ آپ تیسرے زینے پر تشریف فرماہوتے اور دوسرے پراپنے پائے مبارک رکھتے۔ آپ کے انتقال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو جب آپؓ خطبۂ جمعہ کیلئے تشریف لاتے تو نبی کریم کی ذات اقدس کے ادب و احترام میں منبر کے پہلے زینے پر پاؤں رکھتے اور دوسرے زینے پر بیٹھتے ، تیسرے زینے پر نہیں بیٹھتے تھے۔حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ مقررہوئے اور آپؓ جب خطبۂ جمعہ دینے تشریف لاتے تو آپؓ زمین پر پاؤں رکھتے اور پہلے زینے پر بیٹھتے تاکہ خلیفہ اول کی ذات اقدس کی بے ادبی نہ ہو،۔حضرت عثمان غنی ؓ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی پیروی کی اور 6سال تک اسی پر قائم رہے بعد ازاں انہوں نے منبر شریف کو قبطی کپڑوں سے ڈھانکنے کا حکم فرمایا ۔سب سے پہلے انہوں نے منبر شریف کو کپڑوں سے ڈھانکنے کا حکم دیا تھا۔ جب حضرت معاویہ  ؓ امیر المومنین منتخب ہوئے تو انہوں نے منبر شریف پر 6درجوں کا اضافہ کردیا۔ 
 
اگر ہم نبی کریم اور خلفائے راشدین کے ادوار کے منبر شریف کی عمارت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ وہ 3درجات پر مشتمل تھے جس کی لمبائی  4بالشت سے کچھ زیادہ تھی۔ اس میں بیٹھنے کی جگہ ایک ذراع(ایک گز) جبکہ اس کی اونچائی 2ذراع تھی ان میں سے ہر ایک کے اوپر رمانی شکل کی لکڑی لگی ہوتی تھی۔ 
 
مروان بن حکم نے اپنے دورخلافت میں منبر شریف میں 6زینوں کا اضافہ کردیا،اس طرح منبر شریف 9زینوں پر مشتمل ہوگیا تھا۔ خلفاء 7ویں زینے پر خطبۂ جمعہ کے لئے کھڑے ہوتے تھے۔ منبر شریف اسی طرح 654ھ تک قائم رہا ۔جب خلیفہ عباسی مہدی مدینہ منورہ پہنچے تو انہوں نے حضرت امام مالک ؓ سے مشاورت کی کہ منبر شریف کو اس حال پر واپس لایا جائے جس پر نبی کریم کے عہد میں تھا تو انہوں نے اس کی جازت نہیں دی اور نصیحت کی کہ اس میں تغیر نہ کیا جائے۔  
 
سن654ھ میں مسجد نبوی شریف میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جس میں منبر شریف نذر آتش ہوگیا۔اس کا جو حصہ محفوظ رہا اسے ایک صندوق میں رکھ کر کھجور کے تنے کے قریب دفن کردیا گیا اور یمن کے بادشاہ ملک مظفر کا تیارشدہ منبر اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا ۔ یہ منبر صندل کی لکڑی سے بنایا گیا تھا ، اس میں بھی 2ر مانی شکل کی لکڑیاں لگائی گئی تھیں، اسے 656ھ میں منبر شریف کی جگہ پر نصب کیا گیا تھا۔ 
 
سلطان ظاہر بیبرس نے 664ھ میں 9زینوں کا ایک منبر بنوایا تھا۔ اس میں2 کواڑ کا دروازہ تھا ،ہر کواڑمیں چاندی سے تیار شدہ رمانی شکل بنائی گئی تھی،منبر کے بائیں جانب بنانے والے کا نام تحریر تھا، اسے منبر کی پہلی جگہ پر نصب کیا گیا تھا۔ خلفاء 797ھ تک اسی پر چڑھ کر خطبات دیتے رہے تاہم پرانا ہوجانے کی وجہ سے سلطان الظاہر برقوق نے نیا منبر تعمیر کروا کر اسے مسجد نبوی شریف میں رکھوایا، 820ھ تک اسی پر خلفاء خطباتِ جمعہ دیتے رہے۔ 
 
سلطان المؤید شیخ نے 820ھ میں 8زینوں کا منبر بنوایا، ہر زینے کی اونچائی ڈیڑھ ذراع تھی، اس پر ہلالی تصویر تھی۔ اس میں 2کواڑوں کا ایک دروازہ تھا ،اسے مسجد نبوی شریف میں اس کی اصل جگہ رکھا گیا۔ جب مسجد نبوی شریف میں 886ھ میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا اور اس میں منبر شریف بھی نذر آتش ہوگیا تو اہل مدینہ نے اینٹ کا ایک منبر بنوایا بعد ازاں سلطان الاشرف قایتبائی نے سنگ مر مر کا منبر بنوایا ، سید السمہودی نے اسے نبی کریم کے منبر کی جگہ رکھنے کی درخواست کی لیکن اسے اسکی اجازت نہیں دی گئی اور اسے کچھ دور کے فاصلے پر رکھا گیا۔ 
 
سلطان مراد عثمانی نے 998ھ میں نیا منبر بنوایا جسے قایتبائی کے منبر کی جگہ رکھا گیا اور قایتبائی کا منبر مسجد قباء منتقل کردیا گیا بعد ازاں اسے کنگ عبدالعزیز کی لائبریری میں رکھ دیا گیا۔یہ منبر سنگ مر مر سے بنایا گیا تھا، وہ نہایت حسین تھا، اس میں 12زینے تھے، دروازے کے باہر 3اور اس کے اندر 9تھے۔ اس کے اوپر ایک قبہ تھا، اس پر چند آیات قرآنی ، کلمہ شہادت اور چند اشعار تحریر تھے۔
 
سعودی حکومت نے پہلے دن سے ہی حرمین شریفین کے ساتھ منبر کی تزئین و آرائش کی طرف خصوصی توجہ دی، اسے سونے کے پانی سے مزین کیا تاکہ لوگوں کے پکڑنے کا اس پر کوئی اثر نہ ہو۔
 
مساجد میں منبر بنانے کے متعدد مقاصدہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ائمہ کرام کی آوازیں دور تک پہنچائی جاسکے ۔ مورخین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے منبروں کے زینے بڑھائے جاسکتے ہیں تاہم اس کے تعین کے بارے میں روایات میں کچھ نہیں آیا لیکن مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے زینوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
 
رسول کریم کے عہد میں منبر مصلیٰ کے دا ہنی طرف تھا لیکن کیا ایسا کرنا لازم اور ضروری ہے ؟ اس کے متعلق کوئی روایت موجود نہیں،صرف مساجد میں منبر رکھنے کے بارے میں روایات ملتی ہیں جو وجوب پر دلالت نہیں کرتیں۔ ان روایات سے ہم یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ نبی کریم کی اقتدا کرتے ہوئے کہ ایسا کرنا مستحب ہے تاہم مناسب ہے کہ محراب کی دا  ہنی طرف منبر رکھا جائے۔
 

شیئر: