2020 آن پہنچا ہے۔ دنیا بھر میں نئے سال کا جشن اور ایک دوسرے کو جذبہ خیر سگالی کے پیغامات اور دعائیں بھیجنے کا عمل جاری ہے۔ یوں تو نئے سال کی آمد سبھی کے لیے کسی نہ کسی حد تک تبدیلی کا مظہر ضرور ہوتی ہے، چاہے وہ تبدیلی ایک ہندسے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو مگر بعض دوست یہ بھی طنز کر رہے ہیں کہ آنے اور جانے والے سال میں محض انیس بیس کا ہی فرق ہے لہٰذا زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت قطعی نہیں ہے۔
اخبارات اور دیگر فوٹو ایجنسیز سے منسلک فوٹو جرنلسٹس کے لیے سال کے آخری غروب آفتاب کی تصویر اہمیت کی حامل ہوتی ہے، جو اب بھی بعض فوٹو جرنلسٹ و دیگر فوٹو گرافر تیاری اور شوق کے ساتھ بناتے ہیں۔ اگرچہ اردو اخبارات میں اب اس تصویر کی اہمیت کم اور جگہ سکڑ چکی ہے لیکن شائع ضرور ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل فوٹو گرافی سے پہلے سال کے آخری غروب آفتاب کی تصویر کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ ہر کوئی یہ تصویر بنا نہیں سکتا تھا اور نہ ہی بنا بنا کر اسی وقت دیکھنے کے بعد ڈیلیٹ کرنے کا آپشن تھا بلکہ فلم ڈویلپ ہونے کے بعد ہی نتیجہ نکلتا تھا۔
مزید پڑھیں
-
’عوام کی بھوک حکومت کھا جائے گی‘Node ID: 443171
-
’آمدنی اٹھنی، خرچہ روپیہ‘Node ID: 447681
-
’دلیل کے خاتمے پر تشدد، نوبت ہاتھا پائی‘Node ID: 448071
یوں ایک اچھی بلیک اینڈ وائٹ یا رنگین غروب آفتاب کی تصویر بنانے کے لیے مینول تکنیکی مہارت کی زیادہ ضرورت ہوتی تھی۔ دو دہائیاں قبل جڑواں شہروں میں فوٹو جرنلسٹ قلیل تعداد میں تھے۔ اس وقت اِکا دُکا کے علاوہ سبھی اخبارات میں بلیک اینڈ وائٹ تصاویر شائع ہوا کرتی تھیں۔
اخبارات کے نیوز ایڈٹیر آخری غروب آفتاب کی یہ تصویر صفحہ اول پر نمایاں جگہ اور بڑے سائز کی شائع کیا کرتے۔ جس کی وجہ سے ہم فوٹو جرنلسٹوں کے درمیان اس تصویر کے لیے ایک غیر اعلانیہ مگر سخت مقابلہ ہوا کرتا۔
خوب سے خوب تر کی تلاش میں آخری شام سے ہفتہ ڈیڑھ قبل ہی روزانہ کی بنیاد پر مختلف مقامات پر جا جا کر غروب آفتاب کی عکس بندی کی جاتی تا کہ آخری شام بھرپور تصویر فائل کی جا سکے۔ تصویر بناتے وقت گزرے ہوئے سال کے حالات کو بھی مدنظر رکھنے کی کوشش کی جاتی۔ تصویر بنانے کے لیے فلم کے آئی ایس او، شٹر سپیڈ اور اپرچر خاص رکھا جاتا اور پھر فائن گرین ڈویلپر بنا کر ڈارک روم میں فلم خاص احتیاط کے ساتھ ڈویلپ کی جاتی اور انلارجر پر آٹھ بائی دس کا پرنٹ بنایا جاتا اگر تصویر بناتے وقت اوور ایکسپوز یا فلم ڈویلپ کرتے وقت اوور ہو جاتی تو غروب آفتاب کے منظر میں سورج کی مناسب ڈیٹیل نہ آنے کی وجہ سے ڈیپتھ آف فیلڈ متاثر ہو جاتی اور پھر وہ تصویر قابل اشاعت نہ رہتی۔
بعض فوٹو گرافر ایسی صورتحال میں حفظ ماتقدم کے طور پر بلیک اینڈ وائٹ تصویر کے لیے سورج کی جگہ پرنٹنگ پیپر پر چار آنے کا سکہ رکھ کر پرنٹ چھاپ کر بھی کام چلا لیا کرتے لیکن وہ جعل سازی کے زمرے میں آتا اگرچہ تصویر میں وہ بھی سورج دکھائی دیتا۔
بیس برس قبل سال 1999 فوٹو جرنلسٹوں کے لیے اس لیے بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ اس وقت ہمیں سال نہیں بلکہ صدی کے آخری غروب آفتاب کی تصویر بنانا تھی۔ مجھے ایڈیٹر کی جانب سے حکم ملا تھا کہ اس بار پہلی مرتبہ ہمارے اخبار میں وہ تصویر رنگین شائع ہو گی جس کے لیے مجھے دو عدد رنگین فلمیں بھی فراہم کر دی گئیں۔
آخری شام سے دو ہفتے قبل ہی جڑواں شہروں کے سبھی کہنہ مشق فوٹو جرنلسٹ اپنے اپنے آئیڈیاز کے تحت روز شام کو تصویر بنایا کرتے۔ زیادہ تر فوٹو جرنلسٹ اسلام آباد میں لگے میزائل کے ماڈل کی جانب متوجہ تھے کیونکہ اسی سال پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تھے، مگر میں ان سب سے ہٹ کر کوئی تصویر بنانا چاہتا تھا جو پوری صدی کی ترجمانی کر سکے۔
میرا جوڑی دار فوٹو جرنلسٹ زلفی بھی میرے ہمراہ ہوا کرتا، ہم نے کئی بار شام کو اکٹھے تصاویر بنائیں ایک روز میں اپنے ادارے کے سٹور کیپر جو کہ باریش بزرگ تھے انہیں بھی راول ڈیم ہمراہ لے گیا۔ میں نے اور زلفی نے انہیں چھڑی پکڑا کر راول ڈیم کے پانی میں غروب آفتاب عکس بند کیا۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا ہم نے پکوڑوں اور جلیبی سے افطاری بھی وہیں زمین پر کپڑا بچھا کر کی۔ اگلا روزہ آخری تھا میں دوپہر میں ہی اپنے لنگوٹیے دوست راشد کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا۔
گاؤں کی کھلی زمینوں میں گھومتے ہوئے شام ہو گئی اور ہمیں وہاں مرغوں کا دنگل دکھائی دیا جو کہ دیہاتیوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ میں نے زمین پر لیٹ کر ان مرغوں کی لڑائی کی تصاویر بنائیں جن کے عقب میں سورج غروب ہو رہا تھا۔ واپسی پر فلم ڈویلپ ہونے کے بعد جب رنگین پرنٹ بنے تو میں خاصا مطمئن تھا۔ میرے نزدیک یہ صدی کی آخری مناسب تصویر تھی چونکہ گذشتہ سو سال دنیا بھر میں ہر سطح پر جنگ ہی مشترک رہی تھی۔ ایڈیٹر کو بھی تصویر پسند آ گئی اور وہی تصویر میرے اخبار میں صفحہ اول پر بڑے سائز میں شائع بھی ہوئی۔ بعدازاں میرے ادارے نے اسی تصویر پر مجھے تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد انعام سے بھی نوازا۔
اگرچہ اب ہر دوسرا شخص چاہے موبائل سے ہی سہی، ایسے تاریخی مناظر ضرور عکس بند کرتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں بیشتر فوٹو جرنلسٹس کا سال کے آخری غروب آفتاب کی خوب سے خوب تر تصویر بنانے کا جذبہ خاصا کم ہو چکا ہے۔ دراصل ایک تو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے فوٹو جرنلسٹوں کے مابین باہمی مقابلہ بازی کے رحجان کو خاصہ کم کیا ہے۔ دوسری جانب اداروں کی جانب سے اچھی تصویر کی پزیرائی کیے جانے میں بھی کمی آئی ہے کیونکہ فوٹو ایجنسیز کی بہتات کی وجہ سے فوٹو جرنلسٹ کی جانب سے اپنے ادارے کو تصویر فائل کرنے سے پہلے ہی نیوز ڈیسک پر اسی موضوع کی تصاویر کا انبار لگ چکا ہوتا ہے۔
البتہ انٹرنیشنل فوٹو ایجینسیز کے فوٹو جرنلسٹ اب بھی اس موضوع پر محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں جتنی کبھی اخبارات کے فوٹو جرنلسٹ بھی کیا کرتے تھے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں