برطانوی وزیر خارجہ کے مطابق کہ جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ فائدہ شدت پسند تنظیم داعش کو ہوگا۔ (فوٹو:اے ایف پی)
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی عراق میں کسی سفارتی مشن پر نہیں تھے جب ان کو امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا۔
منگل کو واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ ’کیا ایسے کوئی معمولی شواہد بھی ہیں کہ قاسم سلیمانی کوئی سفارت کار تھے جنہوں نے امن مشن کے لیے بغداد کا سفر کیا؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ یقیناً ایسا نہیں تھا۔‘
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ قاسم سلیمانی نے کئی ایسے منصوبے بنائے تھے جن کے نتیجے میں مزید امریکی شہریوں کی ہلاکتیں ہو سکتی تھیں۔ ’وہ خطے میں دہشت کے تسلسل کی مہم کا حصہ تھے۔ اسی وجہ سے ان کو نشانہ بنایا گیا۔‘
ادھر برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب نے کہا ہے ’ ہم چاہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کم ہو جائے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ عراق میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف مشکل سے حاصل کی گئی کامیابیاں کہیں کھو نہ جائیں۔‘
برطانوی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ بہت نقصان دہ ہو گا اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ شدت پسند تنظیم داعش کو ہوگا۔
’ میں اپنے امریکی اور یورپی ہم منصبوں سے ملنا چاہتا ہوں اور اس کے لیے آج برسلز جا رہا ہوں کہ ہم اس کشیدگی کو کم کریں اور اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی سفارتی راستہ نکالیں۔‘
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے مطابق ’امریکہ کی جانب سے جنرل سلیمانی کا قتل ریاستی دہشت گردی ہے اور ایران اس کا مناسب جواب دے گا۔‘
دوسری جانب نیٹو نے کہا ہے کہ عراق سے سکیورٹی کے پیش نظر اپنی کچھ افواج کو واپس بلایا جائے گا۔
نیٹو کا یہ بیان عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد آیا ہے۔
نیٹو کے ایک افسر نے کہا ہے کہ افواج کا انخلا عارضی ہو گا کیونکہ ہماری افواج کی سکیورٹی سب سے اہم ہے۔
فوجی اتحاد نیٹو نے سنیچر کو اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنا تربیتی مشن عراق میں معطل کر دیا ہے۔
اس سے قبل جرمنی نے کہا تھا کہ عراق سے فوج کا انخلا کر رہا ہے۔
جرمن فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بغداد کے قریب تاجی کیمپ میں ان کے 32 فوجی تعینات تھے جن کو ملٹری ٹرانسپورٹر اے400ایم کے ذریعے اردن کے الازرق فوجی اڈے بھیجا گیا ہے۔
بیان کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف سرگرم بغداد کے فوجی ہیڈکوارٹر میں تین جرمن سپاہیوں کو کویت بھیجا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جب بھی عراق میں فوجیوں کی دوبارہ تربیت شروع ہو گی تو ان کو واپس بھیجا جائے گا۔
’ہماری افواج کی حفاظت ہمارے لیے سب سے اہم ہے۔‘
شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف جرمنی نے 415 کے قریب فوجی تعینات کیے جن میں سے 120 فوجی عراق میں ہیں۔
دوسری جانب فرانس کی حکومت کے ایک سورس نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ عراق سے فوج نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
داعش کے خلاف امریکی فوجی اتحاد میں فرانس کے 200 فوجی ہیں جن میں سے 160 فوجی عراقی افواج کی تربیت کر رہے ہیں۔