دراز قد، بھاری وزن، تگڑی جسامت، دلکش آنکھیں، لمبی کمر اور اونچی کوہان والے بھاگ ناڑی نسل کے خوبصورت بیل بلوچستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں منفرد پہچان رکھتے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع کچھی، سبی، نصیرآباد اور جعفرآباد میں پائے جانے والے یہ خوبصورت بیل قربانی کے لیے خریداروں کی اولین ترجیح ہوتے ہیں۔
بلوچستان کے گرم ترین علاقوں میں پائی جانے والی یہ نسل انتہائی سخت جان ہوتی ہے اور قحط سالی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ قدرتی طور پر پاکستان کی سب سے بھاری بھرکم نسل ہے، جس کا اوسط وزن 25 سے 30 من ہوتا ہے جبکہ کچھ کا وزن 50 من تک بھی چلا جاتا ہے۔
معدوم ہونے والی اس نسل کو بچانے کے لیے کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
کسان کہتے ہیں کہ وہ اپنی پہچان، وقار اور ثقافت کی خاطر بھاگ ناڑی کی گائیں اور بیلوں کی نسل کو بچا رہے ہیں۔
حاجی محمد الیاس کلواڑ بلوچستان کے ضلع کچھی کی تحصیل بھاگ ناڑی میں سکول ٹیچر ہیں مگر بھاگ ناڑی نسل کے بیل پالنا ان کا شوق ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے حاجی محمد الیاس کلواڑ نے بتایا کہ وہ بچوں کی طرح ان کی پرورش کرتے ہیں۔
’ہم انہیں گندم اور جوار کے علاوہ مکھن اور دودھ بھی دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ زیادہ وزن کی وجہ سے ان جانوروں کی قیمتیں بھی زیادہ ہیں۔
بلوچستان کی لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے پروفیسر ڈاکٹر الٰہی بخش مرغزانی کا دعویٰ ہے کہ بھاگ ناڑی کی گائیں اور بیل دنیا کی قدیم ترین نسلوں میں سے ایک ہے اور مہر گڑھ سے ملنے والے آثار بھی اس کا ثبوت ہیں۔ مہر گڑھ سے اس بیل کی مورتیاں بھی ملی ہیں۔
یہ جانور آج بھی نہ صرف بھاگ ناڑی بلکہ پورے خطے کی پہچان اور سینکڑوں سال قدیم سبی میلے کی سب سے اہم علامت مانا جاتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر الٰہی بخش نے بتایا کہ بھاگ ناڑی کے کراس بریڈ کے جانور پالے گئے تھے لیکن ان میں وہ صلاحیتیں نہیں تھیں جو خالص نسل والے بھاگ ناڑی کے جانوروں میں پائی جاتی ہیں۔
پولیس اہلکار عبدالنبی کا خاندان بھی تقریباً پینتالیس سال سے بھاگ ناڑی کی گائیں اور بیل پال رہا ہے۔ اس وقت بھی ان کے پاس اس نسل کے بیس جانور ہیں۔
عبدالنبی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے دو سال قبل کراچی کی منڈی میں ستائیس لاکھ روپے کا ایک جانور فروخت کیا تھا۔
’گرمیوں میں ہمارے ہاں موسم بہت مرطوب اور گرم ہوتا ہے تو ہم انہیں ایک ٹھنڈے کمرے میں رکھتے ہیں جہاں ان کے لیے چوبیس گھنٹے پنکھے چلتے رہتے ہیں۔‘
عبدالنبی کے مطابق صرف ایک جانور کا مہینے کا خرچ بیس ہزار روپے سے زیادہ ہے۔
محکمہ امور حیوانات بلوچستان کے حکام کے مطابق بلوچستان بھر میں اس وقت 600 سے700کے قریب بھاگ ناڑی نسل کی گائیں اور بیلیں پائی جاتی ہیں۔
محکمہ امور حیوانات نے اس سلسلے میں کیٹل فارم قائم کیا ہے جہاں ان جانوروں کی افزائش نسل کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھاگ ناڑی جانور پالنے والوں کو سالانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے ۔
ڈائریکٹر جنرل لائیو اسٹاک بلوچستان غلام حسین جعفرنے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھاگ ناڑی کے جانور بلوچستان کی پہچان ہیں، حکومت ان کی افزائش نسل کے لیے اقدامات اٹھا رہی ہے۔
’بھاگ ناڑی کے جانوروں کا وزن بارہ سو کلو گرام سے بھی اوپر جاتا ہے، یہ بالکل گوشت کا پہاڑ ہوتا ہے جو زمین پر چلتا پھرتا ہے۔ سبی میلے میں بھاگ ناڑی کے جانوروں کی نمائش ہوتی ہے جو لوگ پال کر آتے ہیں ا ن کا ایک جانور پچیس تیس لاکھ روپے کا بکتا ہے۔‘