Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کا سخت پیغام

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مقتدر حلقے بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے خواہاں ہیں (فوٹو: روئٹرز)
جب سے ہوش سنبھالا ہے اور سیاسی شعور کا احساس بیدار ہوا ہے، یہی دیکھا ہے کہ نئی حکومت قائم ہونے کے چند ماہ گزرتے ہی اس کے جانے کی تاریخ کے بارے میں اندازے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ان چہ مگوئیوں کے پیچھے کچھ ہاتھ ان نادیدہ قوتوں کا بھی ہوتا ہے جو سیاسی ادوار کے تسلسل کی قائل نہیں اور کچھ سیاسی گنجلکیں ناراض ساتھیوں اور نادان دوستوں  کی جانب سے مزید الجھا دی جاتی ہیں۔
خان صاحب کی حکومت بھی اب اسی دور میں داخل ہو چکی ہے۔ واقفان حال تو یہ کہتے ہی تھے کہ تبدیلی کی کوششوں کا پس پردہ آغاز ہو چکا تھا لیکن اب تو اس کے اثرات واضح طور پر منظر عام پر آگئے ہیں۔
اس وقت تحریک انصاف کو جن تین صوبوں میں مشکلات کا سامنا ہے، ان میں سب سے اہم اور پیچیدہ بساط پنجاب کی ہے جہاں اس وقت گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتوار کو وزیر اعظم نے لاہور آکر خود ناراض ارکان سے ملاقات کی ہے۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ مقتدر حلقے بھی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے خواہاں ہیں اور پہلے مرحلے میں اس تبدیلی کا ہدف عثمان بزدار اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہے۔
صاحبان اختیار کی خواہشات کچھ بھی ہوں، اس نئی صف بندی کا تعین زمینی حقائق، فریقوں کی پوزیشن اور موجود آپشنز میں سے ہی ہوگا۔ ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ اگر پنجاب میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی بھی ہے تو زمینی حقائق کی روشنی میں اس کے کیا خدوخال ہو سکتے ہیں۔
پہلا منظرنامہ یہ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ہی وزیراعلیٰ بزدار کو تبدیل کر کے اپنی ہی صفوں میں سے کو ئی نیا چہرہ سامنے لے آئے۔ خان صاحب فی الحال اس موڈ میں بالکل دکھائی نہیں دے رہے۔

عاطف خان اور دیگر وزرا کو فارغ کر کے ایک واضح پیغام دیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

خیبر پختونخوا میں محمود خان کے پلڑے میں اپنا سیاسی وزن ڈال کر اور اپنے پسندیدہ ترین وزرا عاطف خان اور شہرام ترکئی کو فارغ کر کے، خان صاحب نے ایک بہت واضح اور سخت پیغام دیا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو بزدار کی وزارت اعلیٰ سے بظاہر ق لیگ اور تحریک انصاف کے پنجاب میں اثرو رسوخ رکھنے والوں کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، اگر انہیں شکایت ہے تو ’بےاختیار‘ بزدار سے ہے، جسے وفاقی حکومت نے تمام اختیارات بیوروکریسی کو سونپ کر  دانستہ طور پر بے بس کر دیا ہے۔
اس بات کا امکان البتہ ہے کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو اقتدار کا ہما پی ٹی آئی کے کسی اور رکن پنجاب اسمبلی کے سر پر بیٹھ جائے۔ کئی ’سینیئر‘ رہنما یہ خواہش لیے تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔
دوسرا منظر نامہ، جس کے لیے ن لیگ خاموشی کی تہمت اپنے سر لیے بیٹھی ہے وہ پنجاب میں اقتدار میں شراکت داری کا ہے۔ اس ماڈل میں  وزیر اعلیٰ کا نام مسلم لیگ ن سے ہوگا اور  پی ٹی آئی سے فارورڈ بلاک کی مدد سے یا ق لیگ کے ساتھ حکومت ان کے حوالے کی جا سکتی ہے۔

اب پنجاب میں ن لیگ کی باقاعدہ انٹری کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں (فوٹو: روئٹرز)

لیکن یہ معاملہ اس لیے سمجھ سے بالاتر نظر آتا ہے کیونکہ اگر تمام مشقت سے یہی مقصود تھا کہ سیاست میں ن لیگ کا کردار محدود سے محدود تر کر دیا جائے تو ملک کا سب سے بڑا صوبہ دوبارہ ان کے حوالہ کیونکر کیا جائے گا۔
ن لیگ آخر کار ابھی تک نواز شریف کی سرپرستی اور قیادت میں ہی سیاست کر رہی جن کو بڑی مشکل سے بقول شخصے، نکالا گیا۔ ایسے میں اب پنجاب میں ن لیگ کی باقاعدہ انٹری کی راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں خصوصاً جب وفاق میں وزیر اعظم عمران خان ہی ہوں۔
تیسرا منظرنامہ یہ ہو سکتا ہے، جس کے لیے ق لیگ بہت تگ و دو بھی کر رہی ہے کہ وزرات اعلیٰ کے لیے چہرہ ق لیگ سے ہو جس کو پی ٹی آئی کی حمایت حاصل ہو۔ اس کی دوسری شکل ن لیگ کی حمایت بھی ہو سکتی ہے جس کے اشارے پس پردہ ملاقاتوں سے دیے گئے ہیں مگر ق لیگ سے اس کی توقع نہیں کہ وہ اصل فیصلہ سازوں سے باغی ہو کر ن لیگ سے رجوع کرے۔
ق لیگ کی وزارت اعلیٰ میں سب سے بڑی رکاوٹ خان صاحب خود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورت میں تحریک انصاف کو  پنجاب میں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ تمام فنڈز اور ٹرانسفر/پوسٹنگ ق لیگ کی سیاسی مضبوطی کے لیے ہوں گے جبکہ پی ٹی آئی نظر انداز ہو گی اور اپنا رہا سہا اثر بھی کھو دے گی۔
خان صاحب مقتدر حلقوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ق لیگ کے وزیراعلیٰ پر اعتماد کرنا ایک سنگین غلطی ہو گی۔

 چوہدری نثار اب نواز شریف کے ہم راز نہ رہے ہوں مگر ’ش شہباز شریف‘ سے ان کی ہم نوائی میں غالباً کمی نہیں آئی (فوٹو:ٹوئٹر)

ایک چوتھا منظر نامہ ابھی کچھ اوجھل اور کچھ ظاہر ہے۔ تقریباً پونے دو سال ہونے کو ہیں اور ابھی تک چوہدری نثار نے اپنی صوبائی نشست پر حلف نہیں لیا، کبھی ایوان میں آنے کی زحمت نہیں کی۔ کوئی اور ہوتا تو اس کا مخالف امیدوار شاید اس معاملے پر عدالت سے رجوع کر چکا ہوتا لیکن چوہدری نثار کے کیس میں کوئی بھی مضطرب دکھائی نہیں دیتا۔
چوہدری نثار سیاسی طور پر گوشہ نشین ضرور ہیں لیکن سیاسی معاملات سے لا تعلق نہیں ہیں۔ پی ٹی آئی کو فیصلہ ساز حلقوں میں تو چوہدری نثار کو ہمیشہ سے قبولیت رہی ہے اور پنجاب کو ان کی صورت میں ایک مضبوط سیاسی قد کاٹھ کا وزیراعلیٰ بھی مل سکتا ہے۔
چوہدری نثار اب نواز شریف کے ہم راز نہ رہے ہوں مگر ’ش شہباز شریف‘ سے ان کی ہم نوائی میں غالباً کمی نہیں آئی۔
پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کو شاید اس پہ تحفظات ہوں مگر جہاں آدھی وفاقی کابینہ غیر منتخب شدہ ہے تو یہ کڑوا گھونٹ بھی نگلا جا سکتا ہے۔
پانچواں منظرنامہ شوکت عزیز فارمولا ہے۔ یہ فارمولا وفاق میں آزمایا جا چکا ہے اور اب صوبے میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ یہ مکمن ہے کہ کوئی نئی شخصیت وفاق سے یا پھر پارلیمنٹ کے بھی باہر سے آ کر صوبے کی باگ ڈور سنبھالے۔
بڑی آسانی سے ضمنی انتخاب ہو سکتا ہے اور شاید انتخاب بھی بلا مقابلہ ہو جائے۔ اس منظر نامے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ با اختیار قوتیں ہر قدم پر ہاتھ بڑھائیں۔

 وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کہیں کوئی جگہ دکھائی نہیں دیتی (فوٹو: ٹوئٹر)

کسی سیاسی شخصیت کے لیے تو معاملات چلانا آسان ہو مگر مکمل آؤٹ سائیڈر کے بس کی بات نہیں ہو گی کہ بیک وقت بیورو کریسی اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں رکھ کر گورننس بھی کر سکے۔
یہ پانچوں منظر نامے جلد ہی پس منظر سے پیش منظر میں آئیں گے۔ ان میں سے ن لیگ اور ق لیگ کے وزیر اعلیٰ کا امکان  بہت کم دکھائی دیتا ہے البتہ باقی تین میں سے کسی بھی منظر نامے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ان تمام منظر ناموں میں ایک بات مشترک ہے، اور وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی حقیقت کا روپ اختیار کرے، موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کہیں کوئی جگہ دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا جانا اب صرف متبادل کی آمد تک ہے۔
ورنہ بقول شاعر ’جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

شیئر: