Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گیم نے میرا گھر تباہ کر دیا‘، پب جی کے ذریعے بہو بننے والی نے نند اغوا کر لی

پب جی پر دوستی کے بعد لڑکی فرار ہو کر بہاولپور پہنچ گئی اور والدین کو مجبوراً شادی کرانا پڑی (فوٹو: انسپلیش)
میرا قصور یہ ہے کہ میں ایک بیٹی کا باپ ہوں، اڑھائی ماہ سے اس بچی کی آواز تک نہیں سنی جس کے بغیر میں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی بھی بمشکل پوری کرتا تھا۔‘
بہاولپور عباسیہ ٹاؤن کے ایک بینک میں بطور نجی گارڈ کام کرنے والے خالد محمود یہ کہتے ہوئے رو پڑے۔
ان کی اکلوتی بیٹی ماہم علی کو ان کی بہو مایا علی مبینہ طور پر اغوا کر کے ڈیرہ اسماعیل خان فرار ہو گئی ہیں۔ انہوں نے تھانہ صدر بہاولپور میں مقدمہ درج کر رکھا ہے۔
خالد محمود کے بیٹے کاشان محمود نے مایا علی سے پب جی گیم کے ذریعے رابطہ قائم کیا تھا۔ شادی کے تین ماہ بعد ہی مایا علی مبینہ طور پر گھر کے زیورات اور نقدی چوری کر کے ماہم علی کو اغوا کر کے فرار ہو گئی۔ 

مایا علی کاشان کی زندگی میں کیسے آئی؟

تین سال قبل جب کاشان محمود ہر وقت موبائل پر بپ جی گیم کھیلتے تھے تو ان کے ایک دوست کی اہلیہ نے تین برس قبل انہیں مایا علی کے ساتھ گیم کھیلنے کی تجویز دی۔
کاشان علی نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ ’چند روز گیم کھیلنے کے بعد ہم دونوں نے وٹس ایپ پر رابطہ ہوا، جو دوستی میں بدلا اور کاشان کو اس تعلق کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ فروری 2024 میں کاشان نے ویڈیو کال کے ذریعے مایا کو تقریب میں شامل کیا۔‘
کاشان کا کہنا ہے کہ ’اس کے ٹھیک 15 دن بعد مایا نے بتایا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہیں کیونکہ گھر والے ان کا سودا کر رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مایا نے روتے ہوئے اپنے خاندان کے مظالم کے بارے میں بتایا، جس پر میں نے والدہ کو شادی والی بات بتا دی تاہم والدہ نے انکار کر دیا، تاہم گیم کھیلنے کا سلسلہ جاری رہا۔‘

بہاولپور کے کاشان اور ڈیرہ اسماعیل خان کی مایا علی کے درمیان پب جی گیم کی وجہ سے ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ 28 جون کو مایا نے میسیج کر کے بتایا کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے بہاولپور آ رہی ہیں اور اگلے روز وہ بس اڈے پر پہنچ گئیں، میں نے تین گھنٹے تک انہیں سمجھایا مگر وہ گھر لے جانے پر بضد رہیں۔‘
کاشان مایا کو گھر لے آئے لیکن والد اس پر خوش نہیں تھے، مایا نے ان کے والدین اور بھائیوں کے پاؤں پکڑ کر منتیں شروع کر دیں اور کہا کہ اگر واپس بھیجا گیا تو گھر والے ان کے ساتھ ساتھ کاشان کو بھی مار دیں گے۔‘
خالد محمود کا کہنا ہے کہ ’ہم مجبور ہو گئے 30 جون 2024 کو مقامی عدالت میں کاشان کے ساتھ مایا کی کورٹ میرج کر دی۔‘

مایا کا دوسرا نکاح 

مایا علی نئے گھر میں خوش تھی۔ کاشان جو کمپیوٹر سائنس کی ایسوسی ایٹ ڈگری کی پڑھائی کر رہے ہیں، شادی شدہ زندگی گزارنے لگے۔
خالد محمود کا کہنا ہے کہ ’ٹھیک ایک ماہ بعد جولائی میں ڈی آئی خان سے دو عورتیں، چار بچے اور تین مرد میرے پاس آئے اور الزام لگایا کہ میں ان کی بیٹی کو بھگا کر لایا ہوں۔ میں نے بتایا  کہ وہ خود آئی ہیں اور احتیاطاً ان کو مجسٹریٹ کے سامنے مایا علی کا سی آر پی سی 164 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے لے گیا اور پھر تین اگست سے 13 اگست تک مختلف تاریخوں میں پیشیاں ہوتی رہیں۔‘
خالد محمود بتاتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے آئے لوگوں میں مایا کی ماں تسلیم اختر اور بھائی سمیت ان کا مبینہ شوہر بھی شامل ہوتا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ کیس میں بہت سی پیچیدگیاں ہیں (فوٹو: پنجاب پولیس)

ان کی جانب سے عدالت میں جو نکاح نامہ پیش کیا گیا اس میں نکاح کی تاریخ 5 نومبر 2016 درج تھی جبکہ مایا علی کے برتھ سرٹیفکیٹ میں ان کی تاریخ پیدائش یکم جنوری 2003 درج ہے۔
ان کے مطابق ’اسی کو بنیاد بنا کر مایا علی اور رمیز اکبر نامی شخص کے ساتھ نکاح قابل قبول نہیں مانا جاتا۔‘
اردو نیوز کے پاس یہ دستاویزات موجود ہیں اور متعلقہ تفتیشی افسر سے اس کی تصدیق بھی کروائی جا چکی ہے۔ مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے تحت بیان میں مایا علی نے اقرار کیا کہ وہ اپنی مرضی سے بہاولپور آئیں اور کاشان سے شادی کی۔

واک کے لیے جانا سازش نکلی

عدالتی کارروائی کے بعد خالد محمود کا گھرانہ خوشی خوشی رہنے لگا۔ مایا علی اپنی نند ماہم علی کے ساتھ ساتھ رہتی تھیں اور یوں ان دونوں میں دوستی بڑھتی چلی گئی۔
خالد محمود بتاتے ہیں کہ ’چونکہ ایک گھر تھا تو ہمیں کسی چیز کا اندازہ نہیں ہوا۔ مایا میری بیٹی کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی، کھانا کھاتی اور باتیں کرتی تھیں۔ ان کی پکی دوستی ہوگئی تھی۔‘
گھر میں سب کچھ بحال ہونے لگا تھا اور سب کو یقین آ گیا تھا کہ مایا علی نے عدالت کے سامنے کاشان اور اس کے خاندان کا بھرم رکھتے ہوئے اپنے والدین کو واپس بھیج دیا۔ 
ستمبر 2024 کو مایا علی اپنی ساس کو بتاتی ہیں کہ ان کا وزن بڑھ رہا ہے اور وہ واک کرنا چاہتی ہیں، جس پر ساس نے انہیں سسر سے پوچھنے کا کہا۔

سسر کا کہنا ہے کہ بہو واک کے بہانے 16 سالی بیٹی کو گھر سے باہر لے کر گئی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خالد محمود کے مطابق ’جب مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے اجازت دے دی اور وہ اپنے شوہر اور نند ماہم علی کے ہمراہ قریبی پارک میں واک کے لیے جانے لگیں۔‘
دو نومبر کو صبح اٹھتے ہی مایا نے گھر میں موجود آٹھ تولہ زیورات اور دو بیٹوں کی تنخواہ، جو ایک لاکھ تھی، اٹھائی اور ماہم کو جگایا۔‘
تھانے میں درج مقدمے کے مطابق مدعی خالد محمود نے بتایا کہ جب وہ صبح چار بج کر 50 منٹ پر اپنے بچوں کو جگانے گئے تو فرسٹ ایئر کی طالبہ بیٹی 16 سالہ ماہم چارپائی پر موجود نہیں تھی۔‘
رپورٹ کے متن کے مطابق جب باہر لگے کیمروں کی ریکارڈنگ دیکھی گئی تو پتہ چلا کہ مایا علی ماہم کو سفید رنگ کی گاڑی میں زبردستی ڈال کر فرار ہوئی۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا ہے کہ ’ان کی بیٹی کو مایا علی اپنی والدہ تسلیم اختر اور بھائیوں کے ہمراہ اغوا کر کے ڈی آئی خان لے گئی ہیں۔’
اس حوالے سے کاشان کا کہنا ہے کہ ’مایا علی بتاتی تھیں کہ ان کا خاندان غلط کاموں میں ملوث ہے۔ ہمیں شک کہ مایا علی نے پہلے مجسٹریٹ کے سامنے ہمارا اعتماد جیتا اور پھر گھر کے زیور اور اکلوتی بہن کو نشانہ بنایا۔‘

ماہم کا نکاح اور کیس میں قانونی پیچیدگی 

ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس نے نامزد ملزمان کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ اس حوالے سے ڈی پی او بہاولپور اسد سرفراز خان کی ہدایت پر ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔

مایا علی نے کاشان کو فون پر بتایا کہ وہ گھر سے فرار ہو کر بہاولپور بس سٹینڈ پر پہنچ چکی ہیں (فائل فوٹو: فیس بک، ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن)

اس کیس کے تفتیشی ایس آئی ملک محمد اکرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی سربراہی میں ایک ٹیم ڈیرہ اسماعیل خان جا چکی ہے۔
ان کے بقول ’مغوی ماہم علی کے والد خالد محمود کے ہمراہ ہم ڈیرہ اسماعیل خان کے اس متعلقہ تھانے گئے تاہم ہمیں معلوم ہوا کہ ماہم علی کا نکاح ماصب علی نامی شخص سے 3 اکتوبر 2024 کو ہو چکا ہے۔
ان کے پاس نکاح نامہ اور ماہم علی کے 164 کے تحت ریکارڈ کردہ بیان کی کاپی بھی موجود ہے۔ ہم نے متعلقہ گھر پر چھاپہ بھی مارا لیکن تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔‘ 
دوسری جانب ماہم علی کے والد خالد محمود بتاتے ہیں کہ ماہم 16 سال کی ہیں اور قانوناً ان کا نکاح نہیں ہو سکتا۔‘
ان کے بقول ’19 دسمبر 2024 کو سماعت ہوئی جس میں ہمیں 20 جنوری کی اگلی تاریخ دی گئی، میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے بے تاب ہوں۔ اس کا نکاح کیسے کر دیا گیا، ہمیں تو ایک گیم نے تباہ کر دیا۔‘
 تفتیشی افسر بتاتے ہیں کہ اس کیس میں قانونی پیچیدگی یہ ہے کہ ہم کسی دوسرے صوبے میں ملزمان کو بغیر اجازت کے گرفتار نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے اعلیٰ حکام سے اجازت درکار ہوتی ہے۔
17 دسمبر 2024 کو ڈی پی او بہاولپور نے آئی جی پنجاب پولیس کو ایف آئی آر میں نامزد چار ملزمان کو گرفتار کرنے سے متعلق ایک خط بھی لکھا، جس کی کاپی اردو نیوز کے پاس موجود ہے۔
خط میں ڈی پی او بہاولپور نے آئی جی پنجاب پولیس سے درخواست کی ہے کہ وہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب کو ہوم ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا سے متعلقہ کیس میں گرفتاری کی اجازت اور معاونت کے لیے مطالبہ کریں۔

شیئر: