Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوحنا آباد کیس کے تمام ملزمان بری

دھماکوں کے بعد مشتعل ہجوم نے دو افرا کو آگ لگا کر ہلاک کر دیا تھا، فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ یوحنا آباد کیس میں دو افراد کو زندہ جلائے جانے کے الزام میں گرفتار 40 افراد کو مقدمے سے بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے بدھ کو کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کی رہائی کا حکم دے دیا۔
عدالت نے یہ حکم مقتول افراد کے ورثا کی جانب سے ملزمان کو معاف کرنے کے بعد جاری کیا۔ مقتول بابر نعمان اور حافظ نعیم کے ورثا کی جانب سے پیر کے روز عدالت کے رو برو بیانات قلم بند کروائے گئے کہ وہ ان تمام ملزمان کو معاف کرتے ہیں۔
مقدمے کے پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پراسیکیوشن نے اپنا کام مکمل کیا ہے اور تمام قانونی اور تکنیکی پہلوؤں پر عدالت کی مکمل رہنمائی کی ہے، لیکن اگر ورثا ہی مقدمہ واپس لے لیں یا معاف کر دیں تو پراسیکیوشن اس میں کچھ نہیں کر سکتی۔‘
انہوں نے بتایا کہ’اس مقدمے میں پراسیکیوشن کی طرف سے 42 گواہان پیش کیے گئے۔ اس کے علاوہ تمام ویڈیو فوٹیجز اور تصاویر کی فرانزک رپورٹس بھی عدالت کو مہیا کی گئیں، تاہم عدالت نے معاف کرنے اور مقدمہ واپس لینے کی بنیاد پر تمام ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا۔‘
یاد رہے کہ 15 مارچ 2015 کو لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں کے باہر ہونے والے خودکش حملوں میں 15 افراد ہلاک جبکہ 85 زخمی ہوئے تھے۔

پولیس نے دو بے گناہ افراد کے قتل کے الزام میں 42 افراد کو حراست میں لیا تھا، فائل فوٹو

دھماکوں کے فوری بعد مشتعل ہجوم نے دو افراد جن کی بعد میں شناخت بابر نعیم اور حافظ نعمان کے نام سے ہوئی کو دہشت گردوں کا ساتھی سمجھتے ہوئے سرعام تشدد اور آگ لگا کر ہلاک کر دیا تھا، تاہم بعد میں پولیس تفتیش سے پتا چلا کہ بابر نعمان سرگودھا کے رہائشی اور لاہور میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے جبکہ حافظ نعمان شیشہ کاٹنے کے کام سے وابستہ تھے اور راہ گزرتے ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے۔
پولیس نے دو بے گناہ افراد کے قتل کے الزام میں 42 افراد کو حراست میں لیا تھا اور ان سب کا تعلق عیسائی برادری سے تھا۔ مارچ 2016 میں 42 افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ 42 میں سے دو افراد حراست کے دوران جیل میں انتقال کر گئے جبکہ 40 ملزمان کے خلاف باقاعدہ ٹرائل کا آغاز کیا گیا۔
واقعہ کے پانچ سال بعد اب مقتولین کے ورثا نے تمام ملزمان کو معاف کر دیا ہے۔

شیئر: