انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف 40 روز سے زیادہ عرصے سے جاری مظاہرے میں جمعرات کی دوپہر گولی چلنے کا واقعہ پیش آیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گوپال نامی ایک ہندو شخص نے یہ گولی چلائی ہے جس میں جامعہ کے ماس کمیونیکیشن کا ایک طالب علم زخمی ہوا ہے۔
پولیس نے اس شخص کو حراست میں لے لیا ہے اور اس سے نیو فرینڈز کالونی کے تھانے میں پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
گوپال کے بارے میں انڈین میڈیا کا کہنا ہے کہ وہ اترپردیش کے جیور ضلعے کا رہنے والا 31 سالہ شخص ہے اور اس نے گولی چلانے سے قبل اپنے فیس بک پر وہاں کی سرگرمیاں بھی پوسٹ کی تھیں۔
مزید پڑھیں
-
’حکومت کو سنے بغیر شہریت قانون کو معطل نہیں کر سکتے‘Node ID: 454501
-
’انڈیا میں چھوٹے چھوٹے پاکستان بن رہے ہیں‘Node ID: 454941
-
انڈیا میں دہلی کا شاہین باغ مزاحمت کی علامت کیسے بنا؟Node ID: 455751
اس کے بعد اس نے لکھا کہ 'شاہین باغ کا کھیل ختم' واضح رہے کہ جامعہ سے قریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر شاہین باغ میں خواتین شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مسلسل دن رات دھرنے پر بیٹھی ہیں اور یہ آٹھ فروری کو دہلی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اہم مسئلہ بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
اس نے فیس بک پر اپنی آخری خواہش کے طور پر لکھا: 'میرے آخری سفر پر ۔۔۔ مجھے بھگوا میں لے جائے ۔۔۔ اور جے شری رام کا نعرہ ہو۔'
خیال رہے کہ یہ گولی اس دن چلائی گئی ہے جس دن 72 سال قبل ایک ہندو شدت پسند ناتھو رام گوڈسے نے انڈیا کے بابائے قوم کہے جانے والے کانگریس کے سرکردہ رہنما مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق زخمی ہونے والے طالب علم کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔
انڈیا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے عینی شاہد کے حوالے سے بتایا کہ گرفتار کیے گئے شخص نے فائرنگ کرنے سے پہلے چلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ لو آزادی۔‘

جامعہ میں اکنامکس کی ایک طالبہ آمنہ آصف نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’ہم ہولی فیملی ہسپتال کی جانب جا رہے تھے جہاں پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں، اسی دوران اچانک ایک شخص پستول ہاتھ میں لیے سامنے آ گیا اور اس نے فائرنگ کر دی۔‘
آمنہ آصف کا کہنا ہے کہ ’فائرنگ کے نتیجے میں ایک گولی ان کے دوست کے ہاتھ پر لگی۔‘
زخمی ہونے والے طالب علم کا نام شاداب ہے اور ان کا تعلق جموں کشمیر کے ضلع ڈوڈہ سے ہے۔
ایک عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'گولی چلانے والا اس جانب سے آیا تھا جہاں بڑی تعداد میں پولیس تعینات تھی۔ وہ پستول لہراتا رہا جبکہ پولیس بھی وہاں موجود تھی۔'

'وہ جے شری رام کے نعرے لگا رہا تھا اور لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ اگر انڈیا میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہو گا۔'
تفصیلات کے مطابق مظاہرین نے فائرنگ کرنے والے شخص کو قابو کر لیا جس کے بعد پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔
فائرنگ کرنے والے شخص کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی اور اس سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
جب فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت پولیس کی بھاری نفری اور میڈیا کے عملے کے ارکان بڑی تعداد میں موجود تھے۔
مظاہرہ کرنے والے طلبہ جامعہ ملیہ سے مہاتما گاندھی کی برسی پر ان کی یادگار راج گھاٹ جانا چاہتے تھے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں نفرت کے جو بیج بوئے گئے ہیں اس کا اظہار کبھی جامعہ تو کبھی جے این یو میں نظر آ رہا ہے جہاں سخت گیر ہندو نظریات کے حامل افراد قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے نظر آ رہے ہیں۔
جب سے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے ہیں اس وقت سے ہی حکمراں جماعت اس کی حمایت میں ریلیاں منعقد کر رہی ہے اور اسے قانون کے متعلق بیداری کا نام دے رہی ہے۔
کئی ریلیوں میں واضح الفاظ میں سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف نعرے لگائے گئے جس میں 'دیش کے غداروں کو، گولی مارو ۔۔۔ کو' کے نعرے سنے گئے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گولی چلانے کے واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی طرح کے ہیش ٹیگ نظر آ رہے ہیں جس میں اگر 'شاہین باغ پروٹیسٹ' اور 'جامعہ' سرفہرست ہیں تو 'گوپال ہندتو آتنک وادی' یعنی گوپال ہندو دہشت گرد کے ساتھ 'ٹیررسٹ' اور انوراگ ٹھاکر بھی گردش کر رہا ہے۔'
کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی نے ٹویٹ کی کہ 'جب بی جے پی حکومت کے وزیر اور رہنما لوگوں کو گولی مارنے کے لیے اُکسائیں گے، اشتعال انگیز تقریر کریں گے تب یہ ہونا ممکن ہے۔ وزیر اعظم کو جواب دینا چاہیے کہ وہ کیسی دلی بنانا چاہتے ہیں؟
'وہ تشدد کے ساتھ کھڑے ہیں یا عدم تشدد کے ساتھ؟ وہ ترقی کے ساتھ کھڑے ہیں یا بدنظمی کے ساتھ؟'
जब भाजपा सरकार के मंत्री और नेता लोगों को गोली मारने के लिए उकसाएँगे, भड़काऊ भाषण देंगे तब ये सब होना मुमकिन है। प्रधानमंत्री को जवाब देना चाहिए कि वे कैसी दिल्ली बनाना चाहते हैं?
वे हिंसा के साथ खड़े हैं या अहिंसा के साथ?
वे विकास के साथ खड़े हैं या अराजकता के साथ? pic.twitter.com/jWywAqAW3G
— Priyanka Gandhi Vadra (@priyankagandhi) January 30, 2020
بی جے پی کے رہنما اور رکن پارلیمان انوراگ ٹھاکر نے بھی چند دن قبل دلی میں ہی متنازع شہریت بل کے خلاف مظاہرے کرنے والوں کو دھمکیاں دی تھیں۔ بالی وڈ اداکارہ اور متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں پیش پیش سوارا بھاسکر نے اپنی ٹویٹ میں انوراگ ٹھاکر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے لکھا کہ ’آپ کے اشتعال انگیز بیانات کی وجہ سے جامعہ ملیہ کے طلبہ پر فائرنگ کی گئی۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔‘
انڈیا کے نجی ٹی وی چینل ٹائمز ناؤ نے ٹوئٹر پر ملزم کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’فائرنگ کرنے والے شخص نے واقعے سے پہلے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر نفرت انگیز پوسٹ بھی کی تھی۔
#JamiaGunViolence | The gunman who brandished a gun and attacked a student of Jamia Millia Islamia has posted hate messages on @Facebook just minutes before firing.https://t.co/tW1awgRZxT
— TIMES NOW (@TimesNow) January 30, 2020
یوتھ کانگریس نامی ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا ہے کہ ’ابھی گذشتہ ماہ ہی پولیس نے جامعہ کے طلبہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور آج وہ تماشائی بنی حملہ آور کو دیکھتی رہی۔ گوڈسے کے نفرت اور تشدد کے نظریات اور بی جے پی کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی سے آج جامعہ کے طلبہ پر فائرنگ کی گئی ہے۔ افسوس ناک اور شرمناک۔‘
Just last month, the police terrorised students of Jamia but today the same police stands mute when a shooter attacks students.
Godse's principles of hate and violence perpetrated by BJP leaders has led to this unspeakable gun violence on#Jamia students today. Tragic & shameful pic.twitter.com/uE818L5K3t
— Youth Congress (@IYC) January 30, 2020
ہرنیت سنگھ نے اپنی ٹویٹ میں تحریر کیا کہ ’الیکشن سے پہلے ذرا واقعات کے تسلسل پر غور کریں۔ بی جے پی کے وزیر کہتا ہے کہ گولی مارو سالوں کو۔ یہ آدمی مظاہرین پر فائرنگ کرتے ہوئے کہتا ہے یہ لو آزادی۔‘
Chronology samajhiye election se pehle.
BJP Minister: Goli maaro saalo ko
Two days later: Man fires at protesters, saying: Yeh lo azaadi..
— Harneet Singh (@Harneetsin) January 30, 2020