دن بھر سڑکوں پر سینکڑوں گاڑیاں چلتی دکھائی دیتی ہیں، کچھ ایک دم صاف ستھری چمکتی ہوئی تو کچھ ایسی کہ لگتا ہے کہ ان کے پرزے ابھی الگ ہو کر سڑک پر بکھر جائیں گے۔
ان گاڑیوں میں بیٹھنا تو درکنار ان کے قریب سے گزرنے پر بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں گاڑی یا اس کا کوئی پرزہ ٹوٹ کر آپ سے ٹکرا ہی نہ جائے۔
خستہ حالی کے باوجود یہ گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی رہتی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
راولپنڈی کے چاہ سلطان میں خاص کیا؟Node ID: 456181
-
اُمرا کے تعزیتی اِشتہاراتNode ID: 456231
-
’انقلاب کیسے آئے گا؟ بتائیں نا انکل؟‘Node ID: 456951
دنیا بھر میں گاڑی کو سڑک پر لانے کے لیے ایک فٹنس سرٹیفیکیٹ درکار ہوتا ہے جو کچھ عرصے بعد گاڑی کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد جاری کیا جاتا ہے تاکہ خراب گاڑی سڑک پر چلنے سے کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔ تو کیا ایسا سرٹیفکیٹ پاکستان میں بھی گاڑی کو سڑک پر لانے کے لیے چاہیے ہوتا ہے؟ اگر اس کی ضرورت ہوتی ہے تو فٹنس سرٹیفیکیٹ نہ رکھنے والی گاڑیوں کے مالکان کے خلاف کیا کارروائی کی جاتی ہے؟
یہی سوال ’اردو نیوز‘ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موٹر وہیکل ایگزامینر انعام اللہ چغتائی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے سیکشن 39 کے تحت دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی گاڑیاں چلانے کے لیے ڈرائیونگ لائسنس اور متعلقہ دستاویزات کے ساتھ گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفیکیٹ بھی ضروری ہے۔
’گاڑیوں کو سرٹیفیکیٹ کے اجرا سے قبل تین چیزیں دیکھی جاتی ہیں: انجن، ٹائر اور باڈی۔ ہم چیک کرتے ہیں کہ انجن دھواں (زیادہ) نہ دیتا ہو، ٹائر 1.66 ملی میٹر کا ہو اور بریک ٹھیک ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فٹنس سرٹیفیکیٹ نہ رکھنے والی گاڑیوں کا چالان ہوتا ہے۔
’اس مقصد کے لیے ہم نے ایک شیڈول بنایا ہے جس کے تحت ہم روزانہ کسی ایک علاقے میں گاڑیوں کو چیک کرتے ہیں۔‘
موٹر وہیکل ایگزامینر کے دائرہ کار میں بڑی گاڑیوں، بسوں، ٹرکوں، کوسٹرز، اور ٹیکسیوں کے علاوہ لوگوں کی نجی کاروں اور دیگر چھوٹی گاڑیوں کی فٹنس چیکنگ بھی شامل ہے۔
لیکن شہر میں ذاتی گاڑیاں چلانے والے بیشتر افراد سے جب اس بارے میں دریافت کیا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے خلاف کبھی بھی فٹنس سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے کارروائی نہیں ہوئی۔
![](/sites/default/files/pictures/February/36511/2020/1_16a084374d9.2007260_3609447517_16a084374d9_large.jpg)
انعام اللہ مانتے ہیں کہ بہت سی ٹیکسیوں کے پاس فٹنس سرٹیفیکیٹ موجود نہیں ہوتا۔
’بہت سی ایسی پرانی ایف ایکس گاڑیاں ہیں جنہیں ٹیکسی کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور ان کے پاس فٹنس سرٹیفیکیٹ نہیں ہے۔ ان گاڑیوں کا چالان بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ فٹنس سرٹیفیکیٹ نہیں لیتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جو اس قانون پر عمل نہیں کرتا انہیں مار تو نہیں سکتے، زیادہ سے زیادہ ان کا چالان کر سکتے ہیں۔‘
’پاکستان میں غربت اتنی ہے کہ ایک غریب شخص اپنا ہر لمحہ روزی کمانے میں لگانا چاہتا ہے، بجائے اس کے کہ کاغذات کے چکروں میں پڑے یا اپنے پیسے گاڑی کی مرمت میں لگوائے۔‘
اسلام آباد کے جی نائن مرکز میں مسافر ویگنیں چلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ شہر کے اندر چلنے والی تمام ویگنوں کے پاس گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفکیٹ موجود ہے جس کی ہر پانچ سال بعد تجدید ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکام کا سارا زور پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیاں چیک کرنے پر ہوتا ہے۔
آئی نائن پولیس تھانے میں قائم موٹر وہیکل ایگزامینر کے دفتر میں اپنی پک اپ وین کے لیے فٹنس سرٹیفیکیٹ لینے آئے ہوئے دیر خان نے بتایا کہ ان کے لیے اس دستاویز کا حصول ضروری ہے کیونکہ وہ گاڑی کو سامان کی ترسیل کے لیے کرائے پر چلاتے ہیں۔
کراچی میں مقیم ایک سکول ٹیچر سندس عمیر کا کہنا تھا کہ پہلے گاڑی کے لیے فٹنس سرٹیفکیٹ اتنا اہم نہیں ہوتا تھا لیکن اب ضروری ہو تا جا رہا ہے کیونکہ اب یہ گاڑی بیچتے وقت چاہیے ہوتا ہے۔
موٹر وہیکل ایگزامینر انعام اللہ کے مطابق اسلام آباد میں روزانہ 35 سے 40 گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری ہوتے ہیں۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں