Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی خاتون کو شادی پر مجبور کرنا جرم

ایک برس قید اور 50 ہزار ریال جرمانہ مقرر ہے (فوٹو:عکاظ)
سعودی ماہرین قانون کے مطابق کسی خاتون کو شادی پر مجبور کرنا یا اسے شادی سے روکنا جرم ہے۔ ایسا کرنے پر ایک برس قید اور 50 ہزار ریال جرمانہ مقرر ہے۔ 
عکاظ اخبار کے مطابق کسی خاتون کو کسی ایسے شخص سے جسے وہ ناپسند کرتی ہو یا جو اس کی مرضی کا نہ ہو، شادی پر مجبور کرنا سعودی قانون میں ’تحجیر المراة‘ کہا جاتا ہے اور یہ جرم ہے۔
سعودی قانون ساز نے اس جرم کی سزا خواتین کے وقار کے تحفظ کے لیے بہت مناسب مقرر کی ہے۔
نایف یونیورسٹی برائے سلامتی علوم کی پروفیسر ڈاکٹر ھالہ ابو عامر نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کیا ہے۔

قانون کے مطابق سرپرست خاتون کو ان کی مرضی کے برخلاف شادی پر مجبور نہیں کرسکتا۔ (فوٹو:عکاظ)

ڈاکٹر ھالہ ابو عامر کا کہنا ہے ’سعودی قانون میں اس مسئلے کا موثر حل مقرر کیا گیا ہے۔ خاتون کے سرپرست نے خاتون کو اس کی مرضی کے برخلاف شادی پر مجبور کیا تو اس کی سزا ایک برس قید اور 50 ہزار ریال جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔‘ 
سابق جج نصر الیمنی نے بتایا کہ کسی بھی لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی سے شادی پر مجبور کرنا اسلام میں ناجائز ہے۔ لڑکی کی شادی کے لیے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔
نصر الیمنی کے مطابق ’کسی بھی خاتون کو شادی پر اس کی مرضی کے خلاف مجبور کرنا ایک طرح سے اسے باندی بنانے جیسا ہے۔ مجبوری کی شادی میں خاتون زندگی بھر ذہنی عذاب میں مبتلا رہتی ہے۔‘
سعودی وکیل عصام الملا نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ’شادی پر مجبور کرنا اذیت دینا ہے۔ یہ ایک طرح سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ ایسا کرنے سے متاثرہ خاتون جسمانی اور ذہنی اعتبار سے اذیت کا شکار ہوتی رہتی ہے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر ھالہ ابو عامر نے اس موضوع پر پی ایچ ڈی مقالہ تیار کیا ہے (فوٹو:عکاظ)

ڈاکٹر ھالہ ابو عامر نے بتایا ’سعودی معاشرے میں اس کی تین شکلیں پائی جاتی ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ کسی لڑکی کو بچپن سے ہی اس کے کسی رشتہ دار کے لیے مختص کر دیا جائے اور اسے اس کے سواکسی اور سے شادی سے روک دیا جائے۔ عرب قبائل میں سب سے زیادہ یہی صورت پائی جاتی ہے۔ صدیوں سے عرب معاشروں میں یہ طریقہ چلا آرہا ہے۔‘
ان کے مطابق دوسری شکل یہ ہے کہ کوئی شخص کسی لڑکی کا رشتہ طلب کرے۔ سرپرست اس سے مہلت طلب کرتے ہوئے کہے کہ پہلے میں لڑکی کے چچا زاد بھائیوں سے پوچھو گا اگر ان میں سے کوئی اس سے رشتہ کرنا چاہے گا تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہوگا۔ وہ رشتہ دار اس لڑکی کے لیے مناسب ہو یا نہ ہو اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ 
ڈاکٹر ھالہ کے بقول تیسری شکل یہ ہے کہ کسی خاتون کو کسی خاص شخص کے علاوہ کسی اور سے شادی سے روک دیا جائے۔ وہ رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ خاتون اس شخص میں دلچسپی رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو اس بات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ 

شادی کے لیے مجبور  کرنے والے کو کم از کم ایک ماہ  قید کی سزا ہوگی (فوٹو: سوشل میڈیا)

کبھی کبھار ایسا فیصلہ لڑکی کا رشتہ مانگنے والے یا لڑکی کے سرپرست کے درمیان پیشگی معاہدے کے تحت بھی ہوتا ہے۔ عام طور پر لڑکی کے سرپرست اور ایسے منگیتر کے درمیان کوئی نہ کوئی مالی مفاد جڑا ہوا ہوتا ہے۔
تشدد سے تحفظ کے قانون کی دفعہ تیرہ کے مطابق اگر کوئی شخص کسی لڑکی کو کسی ایسے انسان سے شادی کے لیے مجبور کرے جس سے وہ شادی کرنا نہ چاہتی ہو تو مجبور کرنے والے کو کم از کم ایک ماہ اور زیادہ سے زیادہ ایک برس قید کی سزا ہوگی۔
کم از کم پانچ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار ریال یا ان دونوں میں سے کسی ایک سزا پر اکتفا کیا جائے گا۔
 

شیئر: