امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا آنے والے ہیں اور ان کے دوست نریندر مودی نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جب گجرات کی سابق راجدھانی احمدآباد جائیں گے تو پانچ سے سات ملین لوگ سڑکوں کے کنارے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کریں گے۔
ٹرمپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کوئی بہت بڑی بات ہے، نریندر مودی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ اتنی معمولی سی بات پر اتنا ’اوور دی ٹاپ‘ کیوں جارہے ہیں؟ اگر ملک کی آبادی سوا ارب ہو تو پانچ سات ملین لوگ تو ویسے ہی سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر بسوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں انڈیا اور امریکہ کے جھنڈے پکڑا دیں گے، کہیں گے کہ جب قافلہ گزرے تو ہلاتے رہنا، بس بات ختم۔
مزید پڑھیں
-
آؤٹ آف دی باکس تھِنکنگ!Node ID: 457506
-
سیٹیں کم بریانی زیادہ!Node ID: 458516
-
مسلم جوڑے نے ہندو لڑکی کی شادی کرا دیNode ID: 459661
احمد آباد گجرات کا سب سے بڑا شہر ہے، گجرات نریندر مودی کی ریاست ہے، نریندر مودی انڈیا کے وزیراعظم ہیں اور انڈیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اور یہاں رہنے والے کچھ لوگ امیر ہیں اور کچھ غریب۔ جو غریب ہیں ان میں سے کچھ ایئرپورٹ سے موٹیرا کرکٹ سٹیڈیم جانے والی سڑک کے کنارے بھی رہتے ہیں جہاں صدر ٹرمپ کے اعزاز میں ایک شایان شان تقریب منعقد کی جائے گی۔
سڑک کے کنارے رہنے والے غریب شاید ان لوگوں میں شامل نہیں ہیں جو سڑک پر کھڑے ہوکر صدر ٹرمپ کا استقبال کریں گے اس لیے ان کی کچی اور شاید گندی آبادی کے سامنے ایک دیوار بنائی جارہی ہے تاکہ اس غریب علاقے پر غیر ملکی مہمان کی نظر نہ پڑے اورغربت دیکھ کر بلا وجہ ان کا موڈ خراب نہ ہوجائے۔
وزیراعظم مودی کی طرح آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی بھی ایک انتہائی طاقتور رہنما مانی جاتی تھیں۔ ستر کی دہائی میں ان کی حکومت کا مقبول نعرہ تھا: غریبی ہٹاؤ، دیش بچاؤ۔ غریبی پوری طرح کون ہٹا سکتا ہے، لیکن غریبوں کو ہٹانا تو اتنا مشکل کام نہیں۔ بس ایک دیوار بنا دیجیے، کچھ اسی انداز میں جیسے صدر ٹرمپ میکسیکو کی سرحد پر بنا رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صدر ٹرمپ کے واپس چلے جانے کے بعد یہ دیوار توڑ دی جائے گی تاکہ وہ لوگ جو پہلے نظر آتے تھے دوبارہ سے دکھائی دینے لگیں؟ ایسا نہ ہو کہ دیوار بننے کے بعد لوگ بھول ہی جائیں کہ اس کے پیچھے بھی کوئی رہتا تھا۔
لیکن یہ دیوار بنانا کیوں ضروری تھا؟ جب صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کی گاڑی وہاں سے گزرتی تو کیا مسٹر مودی انہیں باتوں میں نہیں لگا سکتے تھے؟ کہتے ارے یہ تو بتائیے کہ کیا آپ کو معلوم بھی ہے کہ ’کیم چھو‘ کا مطلب کیا ہے؟ صدر ٹرمپ کہتے کہ میں ابھی ابھی گجرات میں اترا ہوں، میں بہت ذہین ہوں لیکن اتنی جلدی تو گجراتی سیکھنا میرے لیے بھی ممکن نہیں، ایک دو دن تو لگ ہی جائیں گے۔ اور مودی کہتے کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کیسے ہیں؟ اور اتنی دیر میں قافلہ اس علاقے سے گزر جاتا۔ نہ دیوار بنانی پڑتی اور نہ توڑنی۔
لیکن یہ ترکیب کامیاب نہیں ہو پاتی کیونکہ اس تقریب کا نام اب کیم چھو ٹرمپ کی جگہ نمستے ٹرمپ کر دیا گیا ہے۔ سنا ہے کہ کیم چھو سے یہ تاثر جاتا ہے کہ بات صرف گجرات کی ہو رہی ہے، اس لیے یہ منصوبہ ترک کر دیا گیا۔
دوسری ترکیب یہ ہوسکتی تھی یہاں رہنے والے سبھی لوگوں کو پہلے ہی موٹیرا سٹیڈیم بھیج دیا جاتا اور کچی بستی کے سامنے ’ہیریٹیج سائٹ‘ کا بورڈ لگا دیا جاتا اور صدر ٹرمپ کو بتایا جاتا کہ دو ہزار سال پہلے انڈیا میں اس طرح کی آبادیاں ہوا کرتی تھیں، ہم نے انہیں محفوظ رکھا ہے تاکہ نئی نسلیں بھی دیکھ سکیں کہ ہزاروں سال پہلے غریب کیسے رہتے تھے۔
موٹیرا سٹیڈیم میں سنا ہے کہ اب ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی گنجائش ہے اور اگر نریندر مودی نے وعدہ کیا ہے تو کیا شبہہ ہے کہ سٹیڈیم کھچا کھچ بھرا ہوا ہوگا۔
وہاں ہو سکتا ہے کہ لوگ ٹرمپ زندہ باد کے نعرے لگائیں اور ایسا ہوا تو اس کی گونج امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بھی سنائی دے گی۔ وہاں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور مداح کہیں گے کہ یہ صدارتی الیکشن بھی ہاتھ سے گیا، اگر ٹرمپ انڈیا میں اتنے مقبول ہیں تو امریکہ میں ہمارا کیا حشر کریں گے!
جب نریندر مودی امریکہ گئے تھے تو ٹیکساس میں ’ہاؤڈی مودی‘ کے عنوان سے ایک تقریب ہوئی تھی، اس میں بھی ٹرمپ آئے تھے اور اپنے ملک میں مسٹر مودی کے مداحوں کا جوش دیکھ کر چکرا گئے تھے۔
اُس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ نریندر مودی اگر امریکہ کے صدر کا الیکشن لڑنے کی ٹھان لیں تو آسانی سے جیت سکتے ہیں۔ لیکن امریکہ کا صدر صرف وہی شخص بن سکتا ہے جو امریکہ کی سرزمین پر پیدا ہوا ہو، اور وہاں کے آئین میں ترمیم کرنا بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔