Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اٹارنی جنرل مستعفی، حکومت کا بیانات سے اظہار لاتعلقی

پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
انہوں نے صدر مملکت کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا ہے اور درخواست کی ہے کہ اس کو منظور کیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ ان سے وکلا کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان بار کونسل نے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا تھا اس لیے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے دلائل میں ایسی باتیں کی تھیں جن کو عدالت نے ناقابل اشاعت قرار دیا تھا۔
جمعرات کو اٹارنی جنرل کے مستعفی ہونے کے بعد وفاق کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں عدالت میں ایک تحریری بیان جمع کرایا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ 18 فروری کو عدالت کے 10 رکنی بینچ کے سامنے دیے گئے اٹارنی جنرل کے زبانی دلائل کا وفاق سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ انور منصور خان نے وفاقی حکومت کی ہدایات کے بغیر بیان دیا تھا۔ 
اٹارنی جنرل کے استعفے کے الفاظ ہیں کہ ’میں نے یہ بات انتہائی افسوس کے ساتھ دیکھی کہ پاکستان بار کونسل نے مجھ سے ایک اخباری بیان کے ذریعے استعفیٰ طلب کیا ہے حالانکہ میں بار کونسل کا چیئرمین ہوں۔‘
انور منصور خان نے لکھا ہے کہ وہ کراچی بار ایسوسی ایشن، سندھ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی بار ایسوسی ایشن کے تاحیات ممبر ہیں۔ ’سندھ کا سابق ایڈووکیٹ جنرل، اٹارنی جنرل پاکستان اور سندھ ہائیکورٹ کا جج بھی رہ چکا ہوں۔‘

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے تحریری شواہد مانگے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے استعفے میں لکھا ہے کہ وہ اپنے بار کے ساتھیوں اور بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ ’دیانتداری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ان اصولوں پر قائم ہوں جن کے لیے پاکستان بار کونسل کوشاں ہے۔‘
بدھ کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے بارے میں اٹارنی جنرل کے بیان پر ان سے تحریری شواہد مانگے تھے۔
عدالت نے حکم دیا تھا کہ شواہد پیش نہ کرنے کی صورت میں اٹارنی جنرل کو عدالت سے تحریری معافی مانگنا ہوگی تاہم اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے تحریری طور پر کچھ بھی نہیں دے سکتے۔

پاکستان بار کونسل کا مطالبہ

گذشتہ روز پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب صدر عابد ساقی نے ایک بیان میں اٹارنی جنرل سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے انور منصور سے عدالت عظمیٰ سے اپنے 'غیر معمولی طرز عمل' پر غیر مشروط تحریری معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
پاکستان بار کونسل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کونسل عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی فراہمی کے عمل کو نقصان پہنچانے کے کسی حکومت کے زیر اثر ہونے والے کسی عمل کو برداشت نہیں کرے گی۔
پی بی سی نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔

انور منصور خان کون ہیں؟

انور منصور خان کراچی سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان ہیں۔ وہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2002 سے 2007 تک سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل رہے۔ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں انور منصور خان کو اٹارنی جنرل فار پاکستان مقرر کر دیا گیا تھا۔

2010 میں انوار منصور نے اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ مبینہ اختلافات پر استعفیٰ دیا تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

تاہم انہوں نے 2 اگست 2010 کو اس وقت کے وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ سوئس حکومت کو اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات کھولنے کے لیے خط لکھنے کے معاملے پر اختلافات پر استعفیٰ دے دیا تھا۔
2018 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے انور منصور خان کو اٹارنی جنرل فار پاکستان کے عہدے پر تعینات کیا تھا۔
خیارل رہے عمران خان کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں دائر پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست میں انہوں نے عمران خان کی پیروی کی تھی۔

شیئر: