پاکستان میں رواں سال فروری اور مارچ کے مہینے’کرکٹ بہار‘ سے منسوب ہو چکے ہیں۔
گزشتہ سال کے اختتام اور اس سال کے آغاز میں غیر ملکی ٹیموں کے یکے بعد دیگرے پاکستان آ کر بین الااقوامی کرکٹ کھیلنے سے جہاں شائقین کو ایک طویل عرصے بعد اپنے وطن میں کرکٹ دیکھنے کو ملی وہیں پی ایس ایل کے پورے ٹورنامنٹ کے پاکستان میں انعقاد سے ’کرکٹ لورز‘ کا جو ش و جذبہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ اسی دوران خواتین کا عالمی کرکٹ کپ بھی آسٹریلیا میں شروع ہو گیا ہے جس کے بعد شائقین کی کرکٹ میں دلچسپی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں جہاں بہت سارے لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پی ایس ایل میں خواتین کے میچز بھی شامل ہونے چاہئیں وہاں کرکٹ کھیلنے کی خواہشمند خواتین کو یہ تجسس بھی ہے کہ وہ کھیلنا کہاں سے سیکھیں۔
مزید پڑھیں
-
آج کی ویمن کرکٹ اور آفریدی کا چند برس پرانا بیانNode ID: 418491
-
ثنا میر نے اپنے کرکٹ کیریئر کو ’بریک‘ لگا دیNode ID: 444251
-
ثنا میر ڈراپ، کپتانی بسمہ معروف کے سپردNode ID: 454156
’اردو نیوز‘ نے پاکستان کے مختلف شہروں میں خواتین کے لیے کرکٹ سیکھنے کے مواقع کا جائزہ لیا ہے۔
اگرچہ پاکستان کی قومی خواتین کرکٹ ٹیم نے بین الاقوامی سطح پر اپنا نام بنالیا ہے اور اس کی متعدد کھلاڑیوں کو عالمی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے لیکن پاکستان میں خواتین کی پروفیشنل کرکٹ اکیڈمیز کی تعداد ابھی تک گنتی کی ہی ہے، جن میں سے زیادہ تر بڑے شہروں میں ہیں۔
خواتین کو کرکٹ سکھانے والے مراکز سب سے زیادہ کراچی میں ہیں جن میں کسٹمز کرکٹ اکیڈمی، راشد لطیف کرکٹ اکیڈمی، یو بی ایل سپورٹس کمپلیکس، معین خان کرکٹ اکیڈمی، این بی پی کرکٹ اکیڈمی، مسلم جمخانہ، کراچی جمخانہ اور نیشنل سپورٹس کمپلیکس شامل ہیں۔ کسٹمز اور راشد لطیف کرکٹ اکیڈمیز کی شہر کے مختلف علاقوں میں ایک سے زائد برانچز ہیں، اور ان میں خواتین کرکٹرز کی اکثریت زیر تربیت ہے۔
لاہور میں کنیرڈ کالج، عبدالقادر کرکٹ اکیڈمی، لاہور کالج فار ویمن اور ظہیر عباس کرکٹ اکیڈمی خواتین کو کرکٹ کی تربیت کے مواقع فراہم کر رہی ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں خواتین کی صرف ایک ایک کرکٹ اکیڈمی ہے جو وفاقی دارالحکومت میں شالیمار کرکٹ اکیڈمی اور راولپنڈی میں ظہیر عباس کرکٹ اکیڈمی کے نام سے کام کر رہی ہیں۔
صوبہ خیبر پختونخوا میں خواتین کھلاڑیوں کے لیے واحد کرکٹ اکیڈمی پشاور میں موجود ہے۔
زیر تربیت نوجوان کھلاڑی ملک میں خواتین کے لیے کرکٹ کے کم مواقع ہونے کا شکوہ کرتی ہیں۔
قومی ٹیم کی فاسٹ بولر فاطمہ ثناء نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے کرکٹ اپنے بھائیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کی اور کافی عرصے تک محلے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلا، اس کے بعد انہیں کلب جانے کا موقع ملا مگر وہ بھی لڑکوں کا کلب تھا اور وہ وہاں کھیلنے والی واحد لڑکی تھیں۔
فاطمہ ثنا کہتی ہیں کہ ’پہلے تو لڑکوں کی بالنگ سے ڈر بھی لگتا تھا، اور ان کے سامنے میں کافی کمزور لگتی تھی مگر محنت اور لگن سے کھیل میں بہتری آئی۔‘
فاطمہ ثنا نے بعد ازاں کراچی کے علاقے بفرزون میں سابق کرکٹر جلال الدین کی سربراہی میں چلنے والی کسٹمز کرکٹ اکیڈمی میں تربیت حاصل کی جہاں قومی ٹیم کی لیگ سپنر عروب شاہ کے علاوہ دیگر کئی قومی کھلاڑیوں نے بھی اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کیا۔
شالیمار کرکٹ اکیڈمی سنہ 2007 سے خواتین کھلاڑیوں کی تربیت کر رہی ہے۔ جہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیول ٹو کے کوچ محمد طاہر خواتین کھلاڑیوں کی کوچنگ کر رہے ہیں۔
محمد طاہر بھی پاکستان میں خواتین کھلاڑیوں کے لیے کرکٹ کے مواقع کم ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کوچ محمد طاہر نے کہا کہ نیشنل چیمپئن شپ نہ ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں خواتین کی کرکٹ میں کمی آئی ہے۔
کوچ محمد طاہر کے مطابق شالیمار کرکٹ اکیڈمی میں 40 سے 50 لڑکیاں کرکٹ سیکھنے آتی تھیں لیکن ملک میں مواقع کم ملنے کی وجہ سے اب ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی خواتین میں کرکٹ کھیلنے کا رحجان روز بروز بڑھ رہا ہے لیکن ان کے لیے ٹورنامنٹس کی کمی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ ملک میں خواتین کے زیادہ سے زیادہ قومی اور بین الااقوامی کرکٹ مقابلے منعقد کروائے جن سے نہ صرف یہ کہ خواتین کھلاڑیوں کو کھیلنے کے زیادہ مواقع ملیں گے بلکہ قومی ٹیم کے لیے مزید ٹیلنٹ سامنے آئے گا۔
-
کھیل کی خبریں واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ”اردو نیوز سپورٹس“ گروپ جوائن کریں