دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
عالمی ادارہِ صحت نے کورونا کو پہلی مرتبہ عالمی وبا کا درجہ دے دیا ہے۔ اس سے قبل قرونِ وسطی میں پھیلنے والے یورپی طاعون سے لے کر پہلی عالمی جنگ کے بعد پھیلنے والے سپینشن فلو تک کسی کو یہ درجہ نہیں ملا۔ کیونکہ ان وباؤں میں بھلے لاکھوں اموات ہوئی ہوں مگر یہ وبائیں کسی ایک یا دو براعظموں تک محدود رہیں البتہ کرونا پہلا وائرس ہے جس نے سب سرحدی، نسلی، ایرانی تورانی عربی عجمی ملحد مسلمان حدیں پار کر لیں۔
تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ اس وقت جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو کرونا 114 ممالک میں پھیل چکا ہے۔ ممکن ہے جب آپ یہ مضمون پڑھیں تب تک یہ ایک سو بیس ممالک تک پہنچ چکا ہو، اور اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد ویسے ایک سو چھیانوے تک ہے۔
دنیا میں تو کورونا وائرس ایک انسان سے دوسرے کو لگ رہا ہے پر اپنے برِصغیر میں یہ وائرس وٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور یو ٹیوب کے ذریعے پھیل رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اور عالمی فلاحی تنظیمیں کورونا وائرس کو سمجھنے کے لیے کروڑوں ڈالر مختص کر چکے ہیں اور چوٹی کی طبی لیبارٹریاں چین سے امریکہ تک اس وائرس کا توڑ کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہی ہیں۔
ان کے مابین تحقیقی دوڑ لگی ہوئی ہے مگر جنوبی ایشیا میں اگرچہ کورونا وائرس کے متاثرین کی سرکاری تعداد اب تک سو سے نیچے ہے پر ویدوں، حکیموں، ٹوٹکے بازوں اور کورونا سے بچاؤ کروانے والے پیروں فقیروں کالے جادو کے انسدادیوں اور راہ چلتے مشورہ دینے والوں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے بھی اوپر نکل گئی ہے۔
کسی نے فیس بک پر پہلا دیواری اشتہار بھی ڈال دیا ہے ’پریشان کیوں؟ عامل ٹیکم داس، زیرو تین سو دو چار سو بیس زیرو چار سو بیس پر فوراً رابطہ کریں۔ تعلقات میں ناچاقی نیز کورونا وائرس کا تسلی بخش علاج۔ پہلے صحت بعد میں فیس۔‘
میں اس بارے میں بالکل بھی محوِ حیرت نہیں۔ کیوں جس معاشرے میں کینسر اور ایڈز کا علاج جھاڑ پھونک سے اور شوگر کا علاج دو چمچ چینی صبح شام پھانکنے کے مشورے سے ہو رہا ہو اور دل کی رگیں بائی پاس کے بجائے لہسن اور شہد اور کلونجی کے آمیزے سے کھولنے کے دعوے ہو رہے ہوں، وہاں اگر کورونا وائرس سے بچنے کے لیے گائے کا پیشاب وغیرہ پینے، گوبر منہ پر ملنے، یا ابلتے ہوئے گرم پانی سے حلق تر کرتے رہنے یا وائرس کو خودکشی پر مجبور کرنے کے لیے کچا لہسن کھانے کی صلاح نہ صرف دی جا رہی ہو بلکہ لاکھوں کی تعداد میں فارورڈ بھی کی جا رہی تو ایسے لوگوں کا کورونا وائرس کیا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
مگر سب سے خراب یہ ہو رہا ہے کہ یار لوگ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ڈبلیو ایچ او یا یونسیف کے نام سے انگریزی میں پریس ریلیز کی طرز پر گمراہ کن مشورے لکھ لکھ کے پھیلا رہے ہیں اور لوگ باگ اپنی عقل کھجانے یا ان میسیجز کو ڈیلیٹ کرنے کے بجائے دکھی انسانیت کی خدمت کے خیال سے آگے بڑھا رہے ہیں۔
ایسے موقع پر میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ لوگوں میں آگہی پیدا کرے، پر میڈیا خود ہر خبر کا پوسٹ آفس بننے کے بجائے ٹھیک طرح سے آگاہ ہوگا، تو یہ کام کرے گا نا۔ اسے تو بریکنگ نیوز کا وائرس چپکا پڑا ہے۔
کوئی اس پر دھیان دینے کو تیار نہیں اس وائرس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے، احتیاط! جنہیں خشک کے بجائے بلغمی کھانسی ہو رہی ہے وہ بطور احتیاط ماسک استعمال کریں۔ ایک دوسرے سے تین چار فٹ کے فاصلے سے بات کریں۔
بخار، کھانسی یا سینے کا انفیکشن ہو تو اپنا معالج خود بننے کے بجائے کسی اصلی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ پانی عام دنوں میں بھی زیادہ پینا چاہیے، اب بھی زیادہ پئیں۔ آس پاس کچرہ نہ جمع ہونے دیں۔
ہاتھ باقاعدگی سے صابن سے پہلے بھی اچھی طرح دھونے چاہیں، اب زیادہ دھوئیں۔ نلکے سے آنے والے پانی پر اعتبار نہیں تو اس میں تھوڑا سا آفٹر شیو لوشن یا ایلووارا ( گوار پاٹھا ) کا جوس ملا کر ہاتھ دھونے کے لیے رکھ چھوڑیں۔
ماسک نہیں ہے تو گھر کی مشین پر دو سلائیاں مار کے خود ماسک سی لیں ۔ویسے آپ کی بیگم ، والدہ، بہن، خالہ، پھوپھی کو معلوم ہے کہ ماسک کیسے سلتا ہے۔ ان سے پوچھ لیں۔ اور بلاوجہ دفتر یا گھر سے باہر نہ نکلیں۔ اس احتیاط سے یار دوست بھلے خوش نہ رہیں مگر بیوی بچے ضرور خوش ہوں گے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے موبائل فون پر موصول ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق سب روحانی، حکیمی، جدی پشتی ٹوٹکے ڈیلیٹ کر دیں۔ جن کے پاس انٹرنیٹ ہے وہ صرف ڈبلیو ایچ او یا کسی ذمہ دار سرکاری و غیر سرکاری صحت تنظیم کی ویب سائٹ پر جائیں۔ وہاں سب احتیاط اور پرہیز لکھے ہوئے ہیں۔
اپنی سیان پتی استعمال نہ کریں، آپ کورونا سے زیادہ سیانے نہیں ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں